ايك شخص كى ملكيت ميں زمين كا ايك پلاٹ ہے جس پر سال مكمل ہو چكا ہے اور اس پر زكاۃ واجب ہو چكى ہے كيونكہ يہ تجارتى سامان ميں سے ہے، اس كى زكاۃ كيسے ادا كى جائے گى، يہ علم ميں رہے كہ مالك كے پاس نقد رقم بہت ہى قليل ہے ؟
اس كے ذمہ تجارتى سامان كى زكاۃ ہے ليكن اس كے پاس رقم نہيں
سوال: 47761
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
كتاب و سنت سے ثابت ہے كہ تجارتى سامان ميں زكاۃ واجب ہے.
كتاب اللہ كے دلائل:
مندرجہ ذيل فرمان باري تعالى كا عموم:
اے ايمان والو اپنى پاكيزہ كمائى ميں سے خرچ كرو، اور ہم نے جو تمہارے ليے زمين سے نكالا ہے البقرۃ ( 267 ).
مجاہد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اپنى پاكيزہ كمائى ميں سے خرچ كرو. اس سے مراد تجارت ہے.
اور حديث ميں ابو داود رحمہ اللہ تعالى كى روايت كردہ مندرجہ ذيل حديث ہے:
سمرہ بن جندب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہميں اس چيز كى زكاۃ نكالنے كا حكم ديتے جو ہم نے فروخت كے ليے ركھى ہوتى تھى"
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1562 ).
اور اس حديث كى سند ميں كلام كى گئى ہے، ليكن بعض اہل علم نے اسے حسن قرار ديا ہے، مثلا ابن عبد البر رحمہ اللہ تعالى نے، اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام نے بھى اسى پر اعتماد كيا ہے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 19 / 331 ).
لہذا جو تجارت كے ليے تيار كردہ ہو جب وہ نصاب كو پہنچ جائے اور اس پر سال مكمل ہو جائے تو اس ميں زكاۃ واجب ہو جاتى ہے.
تو اس بنا پر ميرے سائل بھائى، آپ كى زمين جس پر سال مكمل ہو چكا ہے اس كى زكاۃ نكالنى واجب ہے، وہ اس طرح كہ آپ سال كے آخر ميں اس كى قيمت معلوم كريں اور اس قيمت ميں سے دس كا چوتھائى حصہ زكاۃ ادا كريں مثلا اگر پلاٹ كى قيمت ايك لاكھ دينار ہو تو آپ پر اڑھائى فيصد ( 2.5 % ) زكاۃ نكالنى واجب ہے، يعنى دو ہزار پانچ سو دينار، اور اسى طرح باقى حساب بھى .
اور اگر آپ كے پاس نقدى ہے تو يہ زكاۃ نكالنى واجب ہے، اس ميں پلاٹ فروخت كرنے تك تاخير كرنى جائز نہيں ہے، ليكن اگر آپ كے پاس زكاۃ نكالنے كے ليے نقد رقم نہيں تو آپ كے خوشحال ہونے تك يہ آپ كے ذمہ قرض رہے گا اور اگر زمين فروخت كرنے تك آپ كو رقم ميسر نہ آئے تو زمين فروخت كرنے كے بعد ان سب سالوں كى زكاۃ نكالنا ہو گى جن ميں زكاۃ واجب ہوئى تھى.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" تجارت كے ليے تيار كردہ زمين ميں زكاۃ واجب ہے، اس كى دليل سمرہ بن جندب رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى مشہور حديث ہے وہ بيان كرتے ہيں:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہميں اس چيز كا صدقہ نكالنےكا حكم ديا كرتے تھے جو ہم فروخت كرنے كے ليے تيار كرتے "
يہاں صدقہ سے مراد زكاۃ ہے" اھـ
اور شيخ رحمہ اللہ تعالى كا يہ بھى كہنا ہے:
" جب زمين وغيرہ مثلا گھر اور گاڑى وغيرہ تجارت كے ليے ركھى گئى ہو تو ہر برس اس كى قيمت كے مطابق زكاۃ سال مكمل ہونے پر اس كى زكاۃ نكالنا واجب ہے، اور اس ميں تاخير كرنا جائز نہيں، ليكن جو رقم نہ ہونے كے باعث زكاۃ ادا كرنے سے عاجز ہو، تو اسے اس چيز كى فروخت تك مہلت دى جائيگى اور فروخت كرنے كے بعد وہ ان سب سالوں كى زكاۃ ادا كرے گا، اور ہر سال كے مكمل ہونے كے وقت كى قيمت كے مطابق زكاۃ دينا ہو گى، چاہے وہ زمين يا گاڑى يا گھر كى قيمت خريد سے زيادہ ہو يا كم" اھـ
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 14 / 160 – 161 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب