كيا كسى معين غرض كے ليے قرآن مجيد كى كوئى آيت پڑھنا جائز ہے، مثلا ميں اللہ كے ننانويں ناموں ميں سے كوئى ايك نام ننانويں بار پڑھوں اور پھر اللہ سے اپنى ضرورت و حاجت طلب كروں، اور يہ بطور وسيلہ ہو نا كہ اس ميں كوئى شرك كى آميزش ؟
آيت كى تلاوت اور بعد ميں دعا كرنے كا بدعتى طريقہ
سوال: 485
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اللہ كے اچھے اچھے نام ہيں تم اسے انہى ناموں سے پكارو .
اللہ كے ناموں كے ساتھ اللہ كو پكارنے ميں يہ بھى ہے كہ دعا كرنے والا شخص اسمائے حسنى ميں سے كسى ايك نام كے ساتھ پكارے اور يا رحمان ارحمنى اے رحم كرنے والے مجھ پر رحم فرما كہے، يا پھر يا تواب تب على اے توبہ قبول كرنے والے ميرى توبہ قبول فرما، يا پھر يا رزاق ارزقنى اے روزى رساں مجھے روزى عطا فرما وغيرہ كہے.
رہا مسئلہ كسى آيت كو معين تعداد ( ننانويں بار يا اور عدد ) ميں بغير كسى صحيح دليل كے پڑھنا اور مخصوص كرنا صحيح نہيں، بلكہ يہ بدعت اور حرام شمار ہو گا، كيونكہ اس نے اللہ كى عبادت ايسے طريقہ سے كى ہے جو شريعت ميں وارد نہيں، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسى چيز ايجاد كى جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے ”
صحيح بخارى مع الفتح ( 2697 ).
اس ليے سب سے بہتر اور اچھا طريقہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ ہے، اور اللہ كے دين ميں بدعات ايجاد كرنے كى كوئى مجال اور گنجائش نہيں، اور پھر يہ ہو سكتا ہے كہ دين ميں ہم كوئى ايسى چيز منكشف كرليں جسے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نہ جان سكے ہوں؟!
اس ليے ہميں قرآن مجيد كى تلاوت اسى طرح كرنى چاہيے جس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پڑھا، اور اسى طرح دعا كريں جس طرح آپ نے كى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ دعائيں اور اذكار كريں.
اللہ سبحانہ و تعالى ہى سيدھى راہ كى توفيق دينے والا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد