ميں عيد ميں كيے جانے والى بعض سنتيں اور احكام معلوم كرنا چاہتا ہوں ؟
عيد كے احكام اور اس ميں پائى جانے والى سنتيں
سوال: 49014
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اللہ تعالى نے عيد ميں كئى ايك احكام بنائے ہيں، جن ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:
اول:
چاند رات ميں يعنى رمضان كے آخرى روز غروب شمس سے ليكر نماز عيد ميں امام كے حاضر ہونے تك اونچى آواز ميں تكبيريں كہنا.
تكبير كے الفاظ يہ ہيں:
اللہ اكبر اللہ اكبر، لا الہ الا اللہ، اللہ اكبر و للہ الحمد.
يا پھر تين بار اللہ اكبر كہے اور پھر يہ كہے: اللہ اكبر اللہ اكبر اللہ اكبر لا الہ الا اللہ، اللہ اكبر و للہ الحمد.
يہ سب جائز ہے.
انسان كو چاہيے كہ وہ بازاروں اور مساجد اور گھروں ميں بلند آواز سے تكبيريں كہے، ليكن عورتيں بلند آواز سے نہيں كہينگى.
دوم:
عيد الفطر كى نماز ادا كرنے كے ليے نكلنے سے قبل طاق كھجوريں كھائے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم طاق كھجوريں كھائے بغير نماز عيد كے ليے نہيں نكلتے تھے، اور وہ بھى طاق كھجوريں ہى كھائے جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كيا تھا.
سوم:
اچھے اور خوبصورت كپڑے اور لباس زيب تن كرے، يہ مردوں كے ليے ہے ليكن عورتيں جب عيدگاہ جانے كے ليے نكليں تو وہ خوبصورت لباس پہن كر بے پرد ہو كر مت جائيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" وہ عام لباس ميں جائيں " يعنى عادى لباس ميں جو بے پردگى كا باعث نہ بنے، اور عورت كے ليے بے پرد ہو كر اور خوشبو لگا كر نكلنا حرام ہے.
چہارم:
بعض علماء كرام نے نماز عيد كے ليے غسل كرنا مستحب قرار ديا ہے؛ كيونكہ يہ كچھ سلف رحمہم اللہ سے مروى ہے، اور عيد كے ليے غسل كرنا مستحب ہے، جيسا كہ جمعہ كے دن لوگوں كے جمع ہونے كے ليے مشروع كيا گيا ہے، اگر عيد كے ليے انسان غسل كر لے تو بہتر ہے.
پنجم:
نماز عيد ادا كرنا، نماز عيد كى مشروعيت پر سب مسلمانوں كا اجماع ہے، اور كچھ اسے سنت قرار ديتے ہيں، اور كچھ اسے فرض كفايہ، اور كچھ لوگ فرض عين قرار ديتے ہيں، جو نماز عيد ترك كرے وہ گنہگار ہے، انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان سے استدلال كيا ہے كہ: قريب البلوغ اور كنوارى لڑكياں جو عادتا باہر نہيں نكلتى انہيں بھى نكلنے كا حكم ديا گيا كہ وہ عيدگاہ ميں حاضر ہوں حتى كہ حيض والى عورتيں بھى ليكن وہ جائے نماز سے عليحدہ رہيں گى، كيونكہ حائضہ عورت كے ليے مسجد ميں ٹھرنا جائز نہيں صرف اس كے ليے مسجد ميں گزرنا جائز ہے ليكن وہ وہاں ٹھر نہيں سكتى.
ميرے نزديك جو دلائل سے راجح ہے كہ يہ فرض عين ہے، اور ہر مرد پر نماز عيد ميں حاضر ہونا واجب ہے، صرف عذر والا شخص نہيں، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے بھى اسے ہى اختيار كيا ہے.
نماز عيد كى پہلى ركعت ميں سورۃ الاعلى ( سبح اسم ربك الاعلى ) اور دوسرى ركعت ميں سورۃ الغاشيۃ ( ھل اتاك حديث الغاشيۃ ) تلاوت كرے، يا پھر پہلى ركعت ميں سورۃ ق ، اور دوسرى ركعت ميں سورۃ القمر، دونوں رواتيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت ہيں.
ششم:
جب عيد اور جمعہ دونوں ايك ہى يوم ميں اكٹھے ہو جائيں، تو نماز عيد ادا ہو گى اور اسى طرح نماز جمعہ بھى ادا كيا جائيگا، جيسا كہ نعمان بن بشير رضى اللہ تعالى كى حديث سے ظاہر ہوتا ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے، ليكن جو شخص نماز عيد ميں حاضر ہوا ہو وہ چاہے تو جمعہ ميں حاضر ہو، اور اگر چاہے تو ظہر كى نماز ادا كر لے.
ہفتم:
اكثر اہل علم كے ہاں عيد كے احكام ميں يہ شامل ہے كہ جب انسان عيد گاہ امام سے قبل پہنچ جائے تو وہ دو ركعت ادا كيے بغير ہى بيٹھ جائے گا، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صرف عيد كى دو ركعت ادا كيں نماز عيد سے قبل اور بعد ميں كوئى ركعت نہيں ادا كى تھى.
اور بعض اہل علم كا كہنا ہے كہ: اگر وہ آئے تو دو ركعت ادا كيے بغير نہ بيٹے كيونكہ عيدگاہ مسجد ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ وہاں حائضہ عورت كو آنے سے منع كيا گيا ہے، تو اس ليے وہاں مسجد كا حكم ثابت ہو گا، جو كہ اس كے مسجد ہونے كى دليل ہے.
تو اس بنا پر يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان كے عموم ميں شامل ہوتا ہے:
" جب تم ميں سے كوئى ايك مسجد ميں داخل ہو تو دو ركعت پڑھے بغير نہ بيٹھے"
اور رہا مسئلہ نماز عيد سے قبل اور بعد ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے نمازادا نہ كرنے كا تو يہ اس ليے ہے كہ جب آئے تو نماز عيد سے ابتد كى.
تو اس طرح عيدگاہ كے ليے بھى تحيۃ المسجد ثابت ہے جس طرح باقى مساجد كے ليے، اور اس ليے بھى كہ اگر ہم حديث سے يہ اخذ كريں كہ عيد كى مسجد كے ليے تحيۃ المسجد نہيں تو پھر يہ كہيں گے كہ: جمعہ والى مسجد كے ليے بھى تحيۃ المسجد نہيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب مسجد ميں حاضر ہوتے تو خطبہ ارشاد فرماتے اور پھر دو ركعت پڑھاتے، اور پھر وہاں سے چلے جاتے اور جمعہ كى سنتيں گھر ميں جا كر ادا كرتے، تو جمعہ سے قبل اور نہ ہى بعد ميں نماز نہ ادا كرتے.
ميرے نزديك تو راجح يہى ہے كہ عيدگاہ ميں تحيۃ المسجد ادا كى جائيگى، ليكن اس كے باوجود اس مسئلہ ميں ہم ايك دوسرے پر انكار اور اعتراض نہيں كرينگے؛ كيونكہ يہ اختلافى مسئلہ ہے، اور اختلافى مسئلہ ميں كسى پر انكار كرنا صحيح نہيں، ليكن اگر نص بالكل واضح ہو، اس ليے جو پڑھے ہم اس پر انكار نہيں كرينگے، اور جو بيٹھ جائے ہم اس پر بھى انكار نہيں كرينگے.
ہشتم:
عيدالفطر كے احكام ميں يہ بھى شامل ہے كہ: اس ميں فطرانہ فرض ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا ہے كہ فطرانہ نماز عيد سے قبل ادا كيا جائے، اور عيد سے ايك يا دو روز قبل فطرانہ دينا جائز ہے، اس كى دليل ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى يہ حديث ہے جسے امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے بخارى ميں روايت كيا ہے:
" اور وہ عيد سے ايك يا دو روز قبل ادا كيا كرتے تھے "
اور اگر فطرانہ نماز عيد كے بعد نكالا جائے تو يہ ادا نہيں ہو گا كيونكہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ميں ہے:
" جس نے نماز عيد سے قبل ادا كر ديا تو يہ فطرانہ قبول كردہ ہے، اور جس نے نماز عيد كے بعد ادا كيا تو يہ عام صدقات ميں سے ايك صدقہ ہو گا"
اس ليے انسان پر فطرانہ كى ادائيگى ميں نماز عيد سے تاخير كرنا حرام ہے، اگر وہ بغير كسى عذر كے تاخير كرتا ہے تو يہ فطرانہ قبول نہيں ہو گا، اور اگر عذر تھا يعنى كہ وہ سفر ميں تھا اور اس كے پاس فطرانہ دينے كے ليے كچھ نہ ہو يا پھر اسے فطرانہ لينے والا كوئى نہ ملا، يا جس نے اپنے اہل و عيال پر اعتماد كيا كہ وہ فطرانہ دے ديں گے، اور گھر والوں نے اس پر اعتماد كيا كہ وہ دے دے گا ليكن كسى نے بھى نہ ديا، تو ايسے شخص كے ليے جب آسانى اور ميسر ہو فطرانہ ادا كردے، اگرچہ نماز عيد كے بعد ہى ہو تو اس پر كوئى گناہ نہيں، كيونكہ يہ معذور تھا.
نہم:
لوگ ايك دوسرے كو عيد كى مباركباد ديں، ليكن ايسا كرنے ميں بہت سى محظورات اور ممنوعہ اشياء كى جاتى ہيں، جو بہت سے لوگ ايجاد كر چكے ہيں، وہ اس طرح كہ بعض لوگ گھروں ميں داخل ہو كر اپنے قريبى رشتہ دار اور دوست و احباب كى بے پرد عورتوں كو محرم كے بغير مصافحہ كرتے ہيں، يہ بہت برى چيز ہے جس ميں كئى ايك برائياں ہيں.
ہم ديكھتے ہيں كہ: بعض لوگ اجنبى عورتوں سے مصافحہ كرنے سے منع كرنے والے سے نفرت كرتے ہيں، اور يہ ظالم لوگ ہيں نہ كہ منع كرنے والا، قطع رحمى ان كى جانب سے ہے، نہ كہ روكنے والے كى شخص كى جانب سے، ليكن اس پر واجب اور ضرورى ہے كہ وہ انہيں بتائے اور ان كى راہنمائى كرے كہ انہيں اس مسئلہ ميں ثقہ اہل علم سے سوال كرنا چاہيے تاكہ وہ اس مسئلہ ميں صحيح علم حاصل كر سكيں.
اسے ان كى راہنمائى كرنى چاہيے كہ وہ صرف اپنے آبائى رسم و رواج پر عمل پيرا ہونے كى بنا پر غصہ ميں نہ آئيں؛ كيونكہ يہ رسم و رواج نہ تو كسى حلال كو حرام اور نہ ہى كسى حرام كو حلال كر سكتے ہيں.
اور اسے ان كے سامنے يہ بيان كرنا چاہيے كہ اگر وہ ايسا كرتے ہيں تو وہ بھى بالكل اسى طرح ہونگے جس كے متعلق اللہ تعالى نے بيان كيا ہے:
اور اسى طرح ہم نے آپ سے قبل جس بستى ميں بھى كوئى رسول مبعوث كيا تو اس كے خوشحال لوگوں نے يہ جواب ديا: ہم نے تو اپنے آباء واجداد كو ايك طريقے پر پايا اور ہم ان كے آثار كى پيروى كر رہے ہيں.
اور بعض لوگوں كى عادت ہے كہ وہ عيد كے روز قبرستان جاكر قبر والوں كو عيد كى مباركباد ديتے ہيں، حالانكہ قبروں والوں كو مباركباد كى كوئى ضرورت نہيں، نہ تو انہوں نے روزے ركھے، اور نہ ہى قيام كيا.
اور پھر قبروں كى زيارت عيد يا جمعہ يا كسى اور دن كے ساتھ خاص نہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے رات كے وقت قبرستان كى زيارت كى، جيسا كہ مندرجہ ذيل حديث ميں ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" قبروں كى زيارت كيا كرو كيونكہ يہ تمہيں آخرت ياد دلاتى ہيں "
صحيح مسلم.
قبرستان كى زيارت عبادت ہے، اور عبادت اس وقت تك مشروع نہيں ہوتى جب تك وہ شريعت كے موافق نہ ہو، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيد كے روز كو قبروں كى زيارت كے ليے مخصوص نہيں كيا، اس ليے اسے مخصوص نہيں كرنا چاہيے.
دہم:
اور عيد كے روز لوگ ايك دوسرے سے معانقہ كرتے ہيں، ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
يادہم:
نماز عيد كے ليے جانے والے شخص كے ليے مشروع ہے كہ وہ ايك راستے سے جائے اور واپسى دوسرے راستے سے آئے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ اور سنت يہى ہے، نماز عيد كے علاوہ كسى اور نماز ميں يہ طريقہ سنت نہيں، نہ تو نماز جمعہ ميں اور نہ ہى كسى دوسرى نماز ميں، بلكہ صرف نماز عيد كے ساتھ خاص ہے.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 16 / 216- 223 ) اختصار كے ساتھ.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب