قضاء كى جانے والى نمازوں كى ترتيب كى كيفيت كيا ہو گى ؟
قضاء ميں نمازوں كى ترتيب كى كيفيت
سوال: 49019
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جمہور اہل علم كے مسلك كے مطابق نمازوں كى قضاء ميں ترتيب واجب ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى "المغنى " ميں لكھتے ہيں:
( اور بالجملہ يہ كہ قضاء ميں ترتيب واجب ہے.
امام احمد نے كئى ايك جگہ يہى بيان كيا ہے… اور نخعى، زھرى، ربيعہ، يحي انصارى، امام مالك، ليث، اور امام ابو حنيفہ اور اسحاق رحمہم اللہ جميعا سے اسى طرح منقول ہے.
اور امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں: واجب نہيں؛ كيونكہ فرض فوت شدہ ہے چنانچہ اس ميں ترتيب واجب نہيں، جس طرح روزے ہيں… جب يہ ثابت ہو گيا تو تو اس ميں ترتيب واجب ہے، چاہے كتى بھى زيادہ ہوں، امام احمد نے يہى بيان كيا ہے.
اور امام مالك اور ابو حنيفہ رحمہما اللہ كہتے ہيں:
ايك دن اور رات كى نمازوں سے زيادہ ميں ترتيب واجب نہيں؛ كيونكہ اس سے زيادہ ميں ترتيب كا معتبر ہونا اس كے ليے مشقت ہے، اور يہ تكرار ميں داخل ہونے كا باعث ہے، چنانچہ روزوں كى قضاء ميں عدم ترتيب كى طرح ساقط ہو جائيگى ) اھـ.
ديكھيں: المغنى لابن قدامہ المقدسى ( 1 / 352 ).
چنانچہ اس سے حاصل يہ ہوا كہ احناف، مالكيہ، حنابلہ ميں سے جمہور اہل علم كے ہاں ترتيب واجب ہے، ليكن اتنا ہے كہ مالكى اور احناف كے ہاں ايك دن اور رات سے زيادہ ہونے كى صورت ميں ترتيب واجب نہيں.
ترتيب كى صورت يہ ہو گى كہ جس طرح معروف نماز ادا كى جاتى ہے اسى طرح قضاء بھى ادا كى جائيگى، چنانچہ مثلا جس كى ظہر، عصر كى نماز رہ گئى تو وہ پہلے ظہر اور پھر عصر كى نماز ادا كرے گا.
ليكن بھولنے اور جہالت كى بنا پر ترتيب ساقط ہو جائيگى، اور اسى طرح موجودہ نماز كا وقت نكل جانے اور جماعت رہ جانے كا خدشہ ہو تو پہلے حاضر نماز ادا ہو گى اور پھر فوت شدہ، راجح يہى ہے.
اس ليے جس كى دو نمازيں رہ گئى ہو مثلا ظہر اور عصر اور اس نے بھول كر پہلے عصر كى نماز ادا كر لى يا ترتيب كے وجوب سے جاہل ہونے كى بنا پرتو اس كى نماز صحيح ہو گى.
اور اگر يہ خدشہ ہو كہ قضاء والى نماز ادا كرنے سے موجودہ عصر كى نماز كا اختيارى وقت نكل جائيگا تو وہ عصر كى نماز پہلے ادا كرے، اور پھر اپنى فوت شدہ كى قضاء كرے.
اور اسى طرح اگر وہ مسجد ميں داخل ہو تو كيا وہ جماعت كے ساتھ موجودہ اور حاضر نماز ادا كرے يا كہ فوت شدہ نماز كى قضاء كرے ؟
امام احمد ايك روايت ميں كہتے ہيں اور شيخ الاسلام ابن تيميہ نے بھى اسے اختيار كيا ہے كہ جماعت رہ جانے كے خوف سے ترتيب ساقط ہو جاتى ہے.
ليكن اس حالت ميں انسان كو فوت شدہ نماز كى ادائيگى كى نيت سے جماعت كے ساتھ مل جانا چاہيے، جيسا كہ اگر كسى كى ظہر كى نماز رہتى ہو اور وہ مسجد ميں آئے تو عصر كى جماعت ہو رہى ہو تو وہ جماعت كے ساتھ ظہر كى نماز كى نيت سے نماز ادا كر سكتا ہے، اور امام كى نيت سے مقتدى كى نيت مختلف ہونا كوئى ضرر اور نقصان نہيں دے گا، پھر بعد ميں وہ عصر كى نماز ادا كر لے .
ديكھيں: الشرح الممتع ( 2 / 138 – 144 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب