ہم مغربى كميٹى كے ممبران برسلون ميں رہائش پذير ہيں فطرانہ كا طريقہ كار كيا ہے جس پر ہميں كرنا چاہيے ؟
فطرانہ كى مقدار اور ادائيگى كا وقت
سوال: 49793
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے مسلمانوں پر ايك صاع كھجور يا ايك صاع جو فطرانہ ادا كرنا فرض كيا، اور حكم ديا كہ نماز عيد كے ليے نكلنے سے قبل ادا كيا جائے.
صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں ابو سعيد خدرى ضى اللہ عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ہم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں ايك صاع غلہ يا ايك صاع پھل يا ايك صاع جو يا ايك صاع منقہ فطرانہ ادا كيا كرتے تھے "
اكثر اہل علم نے يہاں غلہ كى شرح كرتے ہوئے كہا ہے كہ اس سے مراد گندم ہے، اور كچھ نے اس كى شرح كرتے ہوئے كہا ہے كہ اس سے مراد خوراك ہے جو علاقے كے لوگ بطور خوراك استعمال كرتے ہيں، چاہے وہ گندم ہو يا مكئى يا باجرہ وغيرہ.
اور صحيح بھى يہى ہے كہ كيونكہ فطرانہ كا مقصد تو غنى و مالدار كى جانب سے فقير و مسكين كى غمخوارى ہے، مسلمان پر ضرورى نہيں كہ وہ اپنے علاقے كى خوراك كے علاوہ كوئى اور چيز دے كر فقير كى غمخوارى كرے، بلاشك و شبہ حرمين كے علاقے كى خوراك چاول ہے جو ہر كوئى پسند كرتا ہے، اور يہ جو سے افضل اور اعلى ہيں.
اس سے يہ علم ہوا كہ فطرانہ ميں چاول دينے ميں كوئى حرج نہيں.
فطرانہ ميں واجب ہے كہ ہر جنس سے ايك صاع ہى ادا كيا جائے اور يہ صاع نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صاع كى مقدار كے مطابق ہو، جو چار چلو يعنى دونوں ہاتھ چار بار بھريں جائيں تو يہ صاع كے برابر ہوگا، جيسا كہ قاموس ميں درج ہے.
اور موجودہ دور كے وزن كے مطابق تقريبا تين كلو گرام بنتا ہے، اس ليے اگر مسلمان شخص ايك صاع چاول يا كوئى اور جنس جو اس كے علاقے كى خوراك شمار ہوتى ہے فطرانہ ادا كرے تو يہ كافى ہوگا، علماء كے صحيح قول كے مطابق چاہے وہ چيز ان اشياء كے علاوہ بھى ہو جو اس حديث ميں مذكور ہيں، اور وزن كى مقدار تين كلو فطرانہ ادا كرنے ميں بھى كوئى حرج نہيں.
ہر چھوٹے اور بڑے مرد و عورت آزاد اور غلام مسلمان كى جانب سے فطرانہ ادا كرنا واجب ہے، رہا ماں كے پيٹ ميں بچہ تو بالاجماع اس كى جانب سے فطرانہ ادا كرنا واجب نہيں، ليكن عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كے عمل كے مطابق اس كى طرف سے ادائيگى مستحب ہے.
اور يہ بھى واجب ہے كہ فطرانہ نماز عيد سے قبل ادا كيا جائے، اور نماز عيد كے بعد تك مؤخر كرنا جائز نہيں، اور عيد سے ايك يا دو يوم قبل ادا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اس سے معلوم ہوا كہ علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق فطرانہ كى ادائيگى كا ابتدائى وقت اٹھائيس رمضان كى رات ہے؛ كيونكہ ہو سكتا ہے مہينہ انتيس كا ہو يا پھر تيس كا، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام عيد سے ايك يا دو روز قبل فطرانہ ادا كيا كرتے تھے.
فطرانہ كا مصرف فقراء اور مساكين ہيں، حديث ميں ثابت ہے كہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فطرانہ روزے دار كى لغو اور بےہودہ باتوں سے پاكى اور مسكينوں كے كھانے كے ليے فطرانہ فرض كيا، جس نے نماز عيد سے قبل ادا كيا تو يہ فطرانہ قبول ہے، اور جس نے نماز عيد كے بعد ادا كيا تو يہ عام قسم كے صدقات ميں شامل ہوگا "
اسے ابو داود نے سنن ابو داود ميں روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں حسن قرار ديا ہے.
جمہور اہل علم كے ہاں فطرانہ كى قيمت نقد رقم ميں ادا كرنى جائز نہيں، اور دليل كے لحاظ سے يہى زيادہ صحيح ہے، بلكہ غلہ كى شكل ميں فطرانہ ادا كرنا واجب ہے، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام كا عمل ہے، اور جمہور امت كا بھى يہى قول ہے.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں اور سب مسلمانوں كو اپنے دين كى سمجھ عطا فرمائے اور اس پر ثابت قدم ركھے، اور ہمارے دلوں اور اعمال كى اصلاح فرمائے، يقينا اللہ سبحانہ و تعالى بڑا سخى اور كرم كرنے والا ہے " اھـ
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 14 / 200 ).
چنانچہ شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى نے فطرانہ كا وزن كے مطابق جو حساب لگايا ہے وہ تقريبا تين كلو گرام ہے.
اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا بھى يہى فيصلہ ہے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 371 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كے حساب كے مطابق چاول دو ہزار ايك سو گرام ( 2100 ) ہے.
ديكھيؤں: فتاوى الزكاۃ ( 274 – 276 ).
وزن ميں يہ اختلاف اس ليے ہے كہ صاع ايك پيمانہ ہے جو حجم كے مطابق ماپا جاتا ہے وزن كے ساتھ نہيں.
علماء كرام نے وزن ميں اندازہ اس ليے لگايا ہے تا كہ سہولت رہے اور ضبط كے زيادہ قريب ہو، اور يہ معلوم ہے كہ دانوں كا وزن مختلف ہوتا ہے، كيونكہ كچھ كم وزن كے ہوتے ہيں اور كچھ زيادہ اور كچھ متوسط وزن ركھتے ہيں.
بلكہ دانوں كى ايك ہى قسم كا صاع ميں وزن مختلف ہوتا ہے، چنانچہ نئے فصل كے دانے پرانى فصل كے دانوں سے وزنى ہوتے ہيں، اس ليے جب انسان احتياط كرتے ہوئے زيادہ فطرانہ ادا كرے تو يہ بہتر اور احتياط ہے.
ديكھيں: المغنى ( 4 / 168 ). اس ميں بھى كھيتى كى زكاۃ ميں وزن كا اندازہ اسى طرح ذكر كيا گيا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب