ميرے والد صاحب كى عمر تقريبا ايك سو پچاس برس ہے اور تقريبا وہ اپنى ياداشت كھو چكے ہيں، ليكن بعض اوقات ہميں پہچان ليتے ہيں اور بعض اوقات نہيں پہچانتے، ان آخرى برسوں ميں وہ اپنا پيشاب بھى كنٹرول نہيں كر سكتے بلكہ ہم دن ميں كئى بار ان كا لباس تبديل كرتے ہيں تو كيا عدم طہارت كے باوجود وہ نماز ادا كرينگے، اور كيا ہم انہيں روزہ ركھنے ديں ؟
بوڑھا شخص پيشاب كنٹرول نہ كر سكے تو نماز روزہ كى ادائيگى كس طرح ہو گى ؟
سوال: 50058
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
آپ كے والد كى عقل و ياداشت اور ادراك كے اعتبار سے ان كا حكم بھى مختلف ہو گا، اگر تو وہ اپنى ياداشت اور عقل كھو بيٹھيں تو انہيں طہارت و نماز اور روزہ كا حكم نہيں ديا جائيگا اور اگر ان كى علق اور ياداشت موجود ہو تو انہيں بغير كسى مشقت كے اپنى استطاعت شرعى امور كا مكلف ٹھرايا جائيگا.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ياداشت كھو چكنے والے اور پاگل و مجنون شخص اور بچے پر روزہ واجب ہے يا نہيں ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
” اللہ سبحانہ و تعالى نے بندے پر عبادات اس صورت ميں فرض كي ہيں جب وہ وجوب كى اہليت ركھتا ہو، يعنى وہ عقل مند ہو اور اشياء كا ادراك كر سكے، ليكن جس شخص ميں عقل ہى نہيں اس پر عبادات لازم نہيں.
تو اس طرح مجنون شخص پر لازم نہيں، اور نہ ہى چھوٹا بچہ جو تميز نہيں كر سكے اس پر لازم ہيں، يہ اللہ سبحانہ و تعالى كى رحمت ہے شامل ہوتا ہے، اور اسى طرح وہ معذور جس كى عقل خراب ہو ليكن وہ مجنون كى حد تك نہ پہنچے، اور اسى طرح وہ بوڑھا شخص جس كى ياداشت جاتى رہے، جيسا كہ اس سائل كا كہنا ہے، تو ايسے شخص پر نہ تو روزہ واجب ہوتا ہے اور نہ ہى نماز اور نہ ہى طہارت؛ كيونكہ ياداشت كھونے والا شخص اس بچے كى طرح ہے جو تميز نہ كر سكتا ہو.
تو اس طرح اس سے تكليف ساقط ہو جائينگى اور اسے نہ تو طہارت لازم ہو گى اور نہ ہى نماز اور نہ ہى روزہ، اور رہا مسئلہ اس كے مال ميں مالى واجبات كا تو يہ اس كے مال ميں واجب ہونگے چاہے وہ اس حالت ميں ہى ہو تو مثلا زكاۃ اس كے ولى الامر اور ذمہ دار پر اس كے مال سے ادا كرنا واجب ہوگى؛ كيونكہ زكاۃ كا وجوب مال سے تعلق ركھتا ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
آپ ان كے مالوں ميں سے صدقہ لے ليجئے جس كے ذريعہ سے آپ ان كو پاك صاف كر ديں اور ان كے ليے دعا كيجئے بلاشہ آپ كى دعا ان كے ليے موجب اطمنان ہے اور اللہ تعالى خوب سنتا ہے خوب جانتا ہے التوبۃ ( 103 ).
اللہ تعالى نے يہ نہيں فرمايا: ” ان سے لو ” اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى معاذ رضى اللہ تعالى عنہ كو جب يمن كى طرف بھيجا تو فرمايا:
” انہيں يہ بتاؤ كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ان پر ان كے اموال ميں زكاۃ فرض كى ہے، جو ان كے غنى اور مالدار لوگوں سے لے كر ان كے غريب اور فقراء كو واپس كيا جائيگا ”
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ فرمايا: ان كے اموال ميں زكاۃ ہے ” اگرچہ وہ مال كے مالك سے ہى لي جاتى ہے.
بہر حال مالى واجبات اس حالت والے شخص سے ساقط نہيں ہونگے، ليكن باقى بدنى عبادات مثلا نماز، طہارت، اور روزہ اس طرح كے بے عقل شخص سے ساقط ہو جائينگى ”
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 ) سوال نمبر ( 40 ).
شيخ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال بھى دريافت كيا گيا:
ايسے شخص كے متعلق روزہ ركھنے كا حكم كيا ہے جو كچھ مدت تو عقل و ہوش ركھتا اور كچھ وقت اپنے ہوش و حواس كھو بيٹھتا ہو، يا ايك روز اول فول بكتا ہو اور دوسرے روز صحيح كلام كرے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
” حكم علت كے اعتبار سے ہو گا، جن اوقات ميں وہ صحيح اور عقل اور ہوش و حواس ركھتا ہو اس پر روزہ فرض ہے، اور جن اوقات ميں وہ مجنون اور اول فول بكنے والا ہو اس پر روزہ نہيں ہو گا، اگر فرض كريں كہ وہ ايك يوم مجنون ہوتا ہے اور ايك روز صحيح اور عقلمند تو جس يوم ميں وہ صحيح ہو اس دن كا روزہ ركھنا لازم ہوگا، اور جس روز وہ صحيح اور علقمند نہيں اس دن كا روزہ ركھنا لازم نہيں ”
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 ) سوال نمبر ( 43 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب