ہمارا امام طاء كو ضاد پڑھتا ہے، چنانچہ اس كى امامت كا حكم كيا ہو گا ؟
ہكلانے والے كى امامت كا حكم
سوال: 50536
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
كسى حرف كو كسى دوسرے حرف سے بدلنے والے كو ہكلا كہتے ہيں.
اس كى كئى ايك حالتيں ہيں:
پہلى حالت:
اس كى ہكلاہٹ قليل سى ہو، وہ اس طرح كہ وہ اصل حرف نكالتا ہو ليكن اس كى تكميل ميں خلل رہتا ہو، تو پھر يہ ہكلاہٹ نقصان دہ نہيں، اسے امامت كروانے كا حق ہے.
تحفۃ المحتاج ميں ہے:
" قليل سى ہكلاہٹ اس كے ليے نقصان دہ نہيں، كہ وہ حرف كو اصل مخرج سے نكالنے ميں مانع نہ ہو، اگرچہ وہ صاف نہيں ہوتا" انتہى
ديكھيں: تحفۃ المحتاج ( 2 / 285 ).
اور مرداوى رحمہ اللہ نے الانصاف ميں آمدى سے ان كا يہ قول نقل كيا ہے:
" يہ قليل ـ يعنى ہكلاہٹ ـ صحت ميں مانع نہيں، ليكن اگر ہكلاہٹ زيادہ ہو تو پھر مانع ہے "انتہى
ديكھيں: الانصاف ( 2 / 271 ).
دوسرى حالت:
شديد قسم كى ہكلاہٹ، وہ اس طرح كہ حرف كو دوسرے حرف سے ہى بدل ڈالے، اور اس كى تصيحيح كى استطاعت ركھنے كے باوجود وہ تصحيح نہ كرے، تو اس شخص كى نماز صحيح ہے، ليكن اس كى امامت صحيح نہيں، اگر يہ حروف سورۃ فاتحہ ميں ہوں.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" سورۃ فاتحہ سب حروف اور شد كے ساتھ نماز ميں پڑھنى واجب ہے… چنانچہ اگر كوئى شخص اس كا كوئى حرف ساقط كر دے، يا پھر شد والے حرف كو شد كے بغير پڑھے، يا زبان صحيح ہونے كے باوجود كسى حرف كو دوسرے حرف سے بدل ڈالے تو اس كى قرآت صحيح نہ ہو گى " انتہى
ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 359 ).
اور امام نووى رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے كہ:
" اگر ہكلا شخص تعلم حاصل كر سكتا ہو، يعنى اس كے ليے تعليم كا حصول ممكن ہو تو فى نفسہ اس كى نماز باطل ہے، چنانچہ بغير كسى اختلاف كے اس كى اقتدا جائز نہيں ہو گى " اھـ
ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 166 ).
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى " المغنى " ميں رقمطراز ہيں:
" جس كسى نے عاجز ہونے كى بنا پر سورۃ فاتحہ كا كوئى حرف چھوڑ ديا، يا اسے كسى دوسرے حرف سے بدل ديا، مثلا وہ ہكلا شخص جو راء كو غين بنا دے.. اگر تو وہ اس كى اصلاح كرنے پر قادر ہو اور اصلاح نہ كرے تو اس كى نماز صحيح نہيں، اور نہ ہى اس كے پيچھے نماز ادا كرنے والے كى نماز صحيح ہے " انتہى مختصرا
ديكھيں: المغنى ( 2 / 15 ).
تيسرى حالت:
ہكلاہٹ اتنى شديد ہو كہ حرف كو دوسرے حرف سے بدل ڈالے، ليكن اسے صحيح ادا كرنے كى استطاعت نہ ہو، تو بالاتفاق ايسے شخص كے پيچھے نماز صحيح ہے.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اور اگر ہكلا شخص تعليم حاصل نہ كر سكتا ہو، كہ اس كى زبان اس كا ساتھ نہ دے، يا پھر وقت تنگ ہو، اور اس سے قبل وہ نہ كر سكے، تو فى نفسہ اس كى نماز صحيح ہے" انتہى بتصرف
ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 166 ).
اس كى امامت صحيح ہونے كے متعلق علماء كرام ميں اختلاف پايا جاتا ہے.
اكثر علماء كرام كا كہنا ہے كہ صحيح نہيں، اور كچھ دوسرے علماء كرام كہتے ہيں كہ صحيح ہے.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے " المجموع " نقل كيا ہے كہ:
انہوں نے مزنى، ابو ثور، ابن منذر نے صحيح ہونا اختيار كيا ہے، اور عطاء، اور قتادہ كا بھى يہى مسلك ہے .
ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 166 ).
اور " حاشيۃ ابن عابدين " ميں منقول ہے:
بعض احناف علماء كرام نے ہكلانے والے شخص كى امامت كو صحيح ہونا اختيار كيا ہے.
ديكھيں: حاشيۃ ابن عابدين ( 1 / 582 ).
ان كے كئى ايك دليل ہيں:
1 – فرمان بارى تعالى ہے:
اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا البقرۃ ( 286 ).
چنانچہ اگر يہ شخص نطق سے عاجز ہو تو اسے اتنا ہى مكلف كيا جائيگا جتنى وہ استطاعت ركھتا ہے.
2 – قيام سے عاجز شخص پر قياس كرتے ہوئے، جس طرح قيام ركن ہے اس كے بغير فرضى نماز صحيح نہيں، ليكن عاجز ہونے كى صورت ميں يہ ساقط ہو جاتا ہے، اور اس سے عاجز شخص كى امامت بھى صحيح ہے، تو اسى طرح ہكلانے والا جو صحيح بولنے سے عاجز ہے كى امامت بھى صحيح ہے .
ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 166 ).
ابن حزم رحمہ اللہ تعالى " المحلى " ميں رقمطراز ہيں:
اور ہكلا اور لكنت والا شخص ( جس كى قرآت واضح نہ ہو ) اور عجمى زبان والا ( جو ضاد اور ضاء، سين اور صاد، وغيرہ ميں فرق نہ كر سكے ) اور زيادہ غلطياں كرنے والا ( جو اعراب ميں زيادہ غلطياں كرے ) ان كى اقتدا ميں ادا كرنے والوں كى نماز صحيح ہے.
كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا .
چنانچہ انہيں اتنا ہى مكلف كيا جائيگا جس پر وہ استطاعت ركھتے ہيں نہ كہ اس چيز كا مكلف كيا جائيگا جس كى ان ميں استطاعت ہى نہيں، انہوں نے نماز اسى طرح ادا كى ہے جس طرح انہيں حكم ديا گيا ہے، اور جو شخص اسى طرح نماز ادا كرے جس طرح وہ مامور تھا تو وہ اس كو بہتر ادا كرنے والے محسن ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا ارشاد ہے:
محسنين پر كوئى راہ نہيں . انتہى
ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 3 / 134 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ميں نے سنا ہے كہ ايك شخص كہہ رہا تھا كہ ہكلانے والے شخص كى امامت صحيح نہيں، يعنى اس كے پيچھے نماز ادا كرنا صحيح نہيں ہے، كيونكہ اس ميں عيب پايا جاتا ہے، كيا يہ بات صحيح ہے ؟ اللہ تعالى آپ كو توفيق سے نوازے.
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
بعض اہل علم كے ہاں يہ صحيح ہے، ان كى رائے ہے كہ ہكلا شخص اگر حروف كو ايك دوسرے كے ساتھ بدل دے، مثلا راء كو غين ميں بدل دے يا اسے لام وغيرہ بنا ڈالے تو بعض اہل علم اس كى امامت كو صحيح نہيں سمجھتے، كيونكہ يہ اس امى اور ان پڑھ شخص كى طرح ہے جس كى امامت صحيح نہيں صرف وہ اپنے جيسوں كى ہى امامت كروا سكتا ہے.
اور كچھ دوسرے علماء كرام كا كہنا ہے كہ: اس كى امامت صحيح ہے كيونكہ جس كى نماز صحيح ہے، اس كا امامت كروانا بھى صحيح ہے، اور اس ليے بھى كہ اس نے اپنے اوپر واجب كردہ كو ادا كيا ہے، جو كہ حسب استطاعت اللہ تعالى كا تقوى تھا، اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اپنى استطاعت كے مطابق اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو .
اور اگر قيام سے عاجز شخص قيام كى قدرت ركھنے والوں كى امامت كروا سكتا ہے، تو پھر يہ بھى اسى طرح ہے، كيونكہ ان ميں سے ہر ايك ركن پورا كرنے سے عاجز ہے، وہ قيام سے اور يہ قرآت سے عاجز ہے، اور صحيح قول بھى يہى ہے، كہ ہكلانے والے كى امامت صحيح ہے، چاہے وہ حرف كو دوسرے حرف سے بدل ڈالے، جب تك اس ميں اتنى ہى قدرت ہو.
ليكن اس كے ساتھ ساتھ يہ ہے كہ نماز كى امامت كے ليے وہ شخص اختيار كرنا چاہيے جس ميں عيب نہ ہو، احتياط اسى ميں ہے، اور تا كہ اختلاف سے بھى بچا جا سكے" فتاوى نور على الدرب.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 248 – 249 ).
دوم:
سائل نے جو يہ ذكر كيا ہے كہ: طاء كو ضاد سے بدل ڈالتا ہے تو اس كے متعلق گزارش ہے كہ: اگر تو وہ اسے حقيقتا ضاد ميں بدل ڈالتا ہے، تو اس كا حكم بيان ہو چكا ہے، اور اگر يہ تبديلى دور سے ظاہر ہوتى ہے، تو احتمال ہے كہ يہ امام طاء ہى ادا كرتا ہو ليكن ضاد كے كچھ قريب ہو جاتا ہے، تو يہ قليل سى ہكلاہٹ ہو گى جو نقصان دہ نہيں.
اور يہ بھى احتمال ہے كہ يہ سائل كى جانب سے تشدد ہو، جو غير محل ميں ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب