ميرا بھائى ايك كامياب تاجر تھا، اور اس كى مالى حالت بھى اچھى اور بہتر تھى، اس نے ايك جديد اور مہنگا ترين گھر بنانا شروع كيا اور كچھ عرصہ بعد اس كى مالى حالت ابتر ہوگئى اور وہ کنگال ہوگیا، تو كيا ميرے ليے اسے زكاۃ دينا جائز ہے، حالانكہ وہ اس گھر كا مالك ہے جس كى ملكيت تقريبا پچاس ہزار دينار ہے، اور اس كى کفالت ميں نو بچے ہيں، اب انكى حالت بہت ہى برى ہے ؟
بھائى مالدار تھا پھر کنگال ہو گيا تو كيا اسکے ذاتی گھر کےہوتے ہوئے زکاۃ دے سکتا ہے؟
سوال: 50640
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اس فقير يا مسكين كو زكاۃ دينى جائز ہے جس كے پاس اپنى اور اہل و عيال كى ضروريات كے ليے نفقہ اور خرچ نہ ہو، لہذا اگر آپ كے بھائى كے پاس رہائش كے ليے مكان ہے جو اسے اور اس كى اولاد كے ليے كافى ہے، تو اسے اس گھر كى بنيادوں كو فروخت كر كے اپنى اور اولاد كى ضروريات پورى كرنى چاہيں، اور اگر اسے فروخت كرنا ممكن نہيں تو پھر نفقہ اور رہائش كى بنا پر اسے زكاۃ دينى جائز ہے۔
ليكن اسے زكاۃ اس ليے ادا نہيں كى جائے گى كہ وہ اپنے اس گھر كى تعمير مكمل كرلے، كيونكہ فقير كو اتنى زكاۃ دى جا سكتى ہے جو اس كى ضروريات پورى كرے، اور آپ كے بھائى كى رہائش كى ضرورت گھر تعميركئے بغیر پورى ہو سكتى ہے، مثلا اس كے لئے كوئى مناسب سا گھر كرايہ پر لے لے۔
دوم:
زكاة كے مستحق اقرباء و رشتہ داروں كو زكاة ادا كرنا غیر رشتہ داروں كو زكاۃ دينے سے افضل اور بہتر ہے ؛ كيونكہ قريبى اور رشتہ دار پر صدقہ كرنا ايك تو صدقہ ہے اور دوسرا صلہ رحمى بھى، ليكن اگر وہ قريبى اور رشتہ دار ان افراد ميں سے ہو جن كا نفقہ اور خرچ آپ پر لازم ہے تو پھر اسے زكاۃ دينى جائز نہيں بلكہ آپ پر ان كا نفقہ اورخرچ كرنا واجب ہے۔
مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 20278 ) كا جواب ديكھيں۔
شيخ محمد صالح عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
“زكاۃ كے مستحقين ميں سے انسان جتنا بھى آپ كا زيادہ قريبى رشتہ دار ہو گا وہ اتنا ہى دوسرے سے اولى و افضل و بہتر ہے؛ كيونكہ آپ كا اپنے قريبى اور رشتہ دار پر صدقہ كرنا ايك تو صدقہ ہے ساتھ میں صلہ رحمى بھی ہے، لہذا آپ كا اپنے قريبى كو زكاۃ دينا جائز ہے بشرطيكہ اس كا نان و نفقہ آپ پر واجب نہ ہوتا ہو، اور اگر اس كا نفقہ آپ پر واجب ہوتا ہو تو اس پر خرچ كرنا آپ پر واجب ہے، اور اپنى زكاۃ اسے دينا جائز نہ ہو گى۔
فرض كريں كہ آپ كا ايك بھائى ہو اور اس كا وارث آپ كے علاوہ كوئى اور نہيں، اور آپ غنى و مالدار ہيں اور اس پر خرچ كرنے كى استطاعت ركھتے ہيں اور آپ كا بھائى فقير ہے،اس صورت ميں آپ كا اسے اپنى زكاۃ دينا جائز نہيں؛ كيونكہ ا سكا نان ونفقہ آپ كے ذمہ واجب ہے، ليكن اگر اس فقير بھائى كى اولاد ہو تو آپ كے ليے اسے زكاۃ دينى جائز ہے؛ كيونكہ اس كى اولاد ہونے كى صورت ميں آپ پر اس كا خرچ واجب نہيں ہوتا، كيونكہ آپ اس كےوارث نہيں ہيں۔
ماخوذ: از خطبۃ الجمعۃ ( المجموعۃ السابعۃ )
اور شيخ محمد صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:
رشتہ داروں كو زكاۃ دينے كا حكم كيا ہے؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
اس ميں قاعدہ و اصول يہ ہے كہ: ہر وہ قريبى اور رشتہ دار جس كا نان و نفقہ زكاۃ دينے والے پر واجب ہوتا ہے تو اسے زكاۃ دينى جائز نہيں جو اس كے نفقہ اور خرچ كو ختم كرنے كا سبب بنے۔
ليكن اگر اس قريبى اور رشتہ دار كا نان ونفقہ اس پر واجب نہيں ہوتا، مثلا جب بھائى كى اولاد ہوـ كيونكہ جب بھائى كے بيٹے ہوں تو بيٹوں كے ہوتے ہوئے ان كے مابين آپس ميں عدم وراثت كو مد نظر ركھتے ہوئے اس كے بھائى پر اس كا نفقہ واجب نہيں ہوگا ـ اور اس حالت ميں اگر بھائى زكاۃ كے مستحقين ميں سے ہو تو بھائى اسے زكاۃ دے سكتا ہے۔
اسى طرح اگر انسان كے قريبى اور رشتہ دار نفقہ ميں تو زكاۃ كے محتاج نہيں، ليكن ان پر قرض ہے تو يہ قرض ادا كرنا جائز ہے، اگرچہ وہ قريبى والد يا بيٹا، يا بيٹى يا ماں ہى كيوں نہ ہو، بشرطیکہ کہ ان پر پڑنے والا قرضہ فضول خرچی کی وجہ سے نابنا ہو۔
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 18 / 414 )
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب