نماز تراويح ميں بعض نمازيوں كو كرسى كى ضرورت ہوتى ہے، ہميں يہ تو علم ہے كہ اگر نمازى سارى نماز كرسى پر بيٹھ كر نماز ادا كرے تو كرسى كى پچھلى ٹانگيں صف كے برابر ركھنى ہيں، ليكن سوال يہ ہے كہ درج ذيل حالات ميں صف كيسے بنائى جائيگى:
1 – صرف قيام ميں كرسى پر بيٹھنے كى حالت ميں ؟
2 – ركوع يا سجود يا تشھد كى حالت ميں كرسى پر بيٹھنے كى صورت ميں ؟
3 – نماز ميں مختلف مقامات پر كرسى پر بيٹھنے كى صورت ميں ؟
كرسى پر بيٹھ كر نماز ادا كرنے كے احكام و مسائل
سوال: 50684
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
قيام، ركوع اور سجدہ نماز كے اركان ميں شامل ہوتے ہيں، چنانچہ استطاعت كى حالت ميں يہ اركان شرعى ہيئت كے مطابق ہى ادا كرنا واجب ہيں، ليكن جو شخص كسى بيمارى يا بڑھاپے كى بنا پر ان اركان كى شرعا مطلوب صورت ميں ادائيگى سے عاجز ہو تو اس كے ليے زمين يا كرسى پر بيٹھ كر ادا كرنا جائز ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
نمازوں كى پابندى كرو، اور خاص كر درميانى نماز كى پابندى كرو اور اللہ تعالى كے ليے باادب كھڑے رہا كرو البقرۃ ( 238 ).
اور عمران بن حصين رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ مجھے بواسير كى بيمارى تھى چنانچہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے نماز كے متعلق دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كھڑے ہو كر نماز ادا كرو، اور اگر كھڑے ہونے كى استطاعت نہيں تو بيٹھ كر، اور اگر استطاعت نہيں تو پہلو كے بل "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1066 ).
ابن قدامہ مقدسى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:ط
اہل علم كا اجماع ہے كہ جو شخص قيام كى استطاعت نہيں ركھتا وہ بيٹھ كر نماز ادا كرے.
ديكھيں: المغنى لابن قدامہ ( 1 / 443 ).
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
امت كا اجماع ہے كہ جو شخص فرضى نمازوں ميں قيام سے عاجز ہو تو وہ بيٹھ كر نماز ادا كرے، اور اسے نماز نہيں لوٹانا ہو گى، ہمارے اصحاب كا كہنا ہے:
قيام كر كے نماز ادا كرنے سے اس كا ثواب كم نہيں ہو گا كيونكہ وہ قيام سے معذور ہے، اور پھر صحيح بخارى ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ثابت ہے:
" جب بندہ بيمار ہو جاتا ہے يا سفر ميں ہو تو اس كے ليے وہى اعمال لكھے جاتے ہيں جو وہ تندرستى اور صحت كى حالت ميں كرتا رہا ہے "
ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 226 ).
شوكانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
عمران رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں دليل ہے كہ اگر كوئى شخص كسى عذر كى بنا پر قيام كى استطاعت نہ ركھے تو وہ بيٹھ كر نماز ادا كرلے، اور جو شخص عذر كى بنا پر بيٹھنے سے بھى قاصر ہو وہ پہلو كے بل ليٹ كر نماز ادا كر لے.
ديكھيں: نيل الاوطار ( 3 / 243 ).
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" مسلمان اس پر متفق ہيں كہ اگر نمازى نماز كے بعض واجبات مثلا قيام يا قرآت يا ركوع يا سجود يا تن چھپانا يا قبلہ رخ ہونا وغيرہ كى ادائيگى سے عاجز ہو تو يہ واجب اس سے ساقط ہو جاتا ہے" انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 8 / 437 ).
اس بنا پر جو كوئى بھى قيام كى استطاعت ركھنے كے باوجود فرضى نماز بيٹھ كر نماز ادا كرے تو اس كى نماز باطل ہے.
دوم:
اسے ايك چيز پر ضرور متنبہ رہنا چاہيے كہ: اگر وہ قيام ميں معذور ہے تو اس وجہ سے اس كے ليے سجدہ اور ركوع كے ليے كرسى پر بيٹھے رہنا جائز نہيں.
اور اگر وہ ركوع اور سجدہ اصل صورت ميں كرنے سے معذور ہے تو اس كے ليے اس سے معذور ہونا قيام ميں بھى بيٹھنے كے ليے جواز كا باعث نہيں ہو گا كہ وہ قيام ميں بھى كرسى پر بيٹھ رہے.
چنانچہ قاعدہ اور اصول يہ ہوا كہ: نماز جس فعل كو سرانجام دينے كى استطاعت ركھے اسے ادا كرنا واجب ہے، اور جس سے عاجز ہو وہ ساقط ہے.
لہذا جو شخص قيام كرنے سے عاجز تو وہ قيام كى حالت ميں كرسى پر بيٹھ سكتا ہے، ليكن ركوع اور سجدہ اس كى اصل صورت ميں ہو كرے گا، اور اگر وہ قيام ميں كھڑا ہو كر نماز ادا كرنے كى استطاعت ركھتا ہے اور اس كے ليے ركوع اور سجدہ كرنا مشكل ہے تو وہ ركوع اور سجدہ كے وقت كرسى پر بيٹھ جائے، اور سجدہ ركوع سے كچھ نيچے جھك كر كرے گا.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 9307 ) اور ( 36738 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
ابن قدامہ مقدسى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
جو شخص قيام ميں كھڑا ہونے پر قادر ہو ليكن ركوع يا سجدہ كرنے سے عاجز ہو تو اس سے قيام ميں كھڑا ہونا ساقط نہيں ہو گا، بلكہ وہ نماز كھڑا ہو كر ادا كرے اور ركوع ميں اشارہ كر كے پھر سجدہ كے ليے بيٹھ جائے اور سجدہ ميں اشارہ كرے، امام شافعى رحمہ اللہ كا بھى يہ كہنا ہے …
كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور اللہ تعالى كے ليے باادب كھڑے رہا كرو .
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" نماز كھڑے ہو كر ادا كرو "
اور اس ليے بھى كہ قدرت ركھنے والے شخص كے ليے قيام ميں كھڑا ہونا ركن ہے، چنانچہ قرآت كى طرح اسے بھى ادا كرنا لازم ہے، اور قيام كے علاوہ كسى اور چيز سے عاجز ہونا قيام كے سقوط كا متقاضى نہيں، جيسا كہ اگر كوئى شخص قرآت سے عاجز ہو تو اس سے قيام ساقط نہيں ہو گا. انتہى
ماخوذ از: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 444 ) مختصرا
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
زمين يا كسى پر بيٹھ كر نماز ادا كرنے والے كے ليے ضرورى اور واجب ہے كہ وہ سجدہ كرتے وقت ركوع سے زيادہ جھكے، اور اس كے ليے سنت يہ ہے كہ وہ ركوع كى حالت ميں اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں پر ركھے، ليكن سجدہ كى حالت ميں اس كے ليے واجب يہ ہے كہ اگر استطاعت ہو تو ہاتھ زمين پر ركھے ليكن اگر استطاعت نہ ہو تو پر اپنے ہاتھ گھٹنوں پر ركھے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" مجھے سات ہڈيوں پر سجدہ كرنے كا حكم ديا گيا ہے، پيشانى ـ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے ناك كى طرف اشارہ كيا ـ اور دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنے، اور پاؤں كى انگلياں "
اور جو شخص ايسا كرنے عاجز ہو اور كرسى پر بيٹھ كر نماز ادا كرے تو اس ميں كوئى حرج نہيں كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
تم ميں جتنى استطاعت ہو اسقدر اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب ميں تمہيں كسى چيز كا حكم دوں تو تم اپنى استطاعت كے مطابق اس پر عمل كرو "
صحيح بخارى اور صحيح مسلم.
ديكھيں: فتاوى ابن باز ( 12 / 245 – 246 ).
سوم:
اور كرسى كو صف ميں ركھنے كے مسئلہ كے متعلق علماء كرام نے بيان كيا ہے كہ جو شخص بيٹھ كر نماز ادا كرتا ہے اس كے ليے اس كى پشت معتبر ہو گى، چنانچہ نہ تو وہ صف سے آگے ہو اور نہ ہى آگے ہو، كيونكہ مقعد جسم كا وہ حصہ ہے جس پر بدن كا استقرار ہے.
ديكھيں: اسنى المطالب ( 1 / 222 ) تحفۃ المحتاج ( 2 / 157 ) شرح منتہى الارادات ( 1 / 279 ).
اور " الموسوعۃ الفقھيۃ " ميں ہے كہ:
" جمہور فقھاء كرام ( احناف، شافعيہ، اور حنابلہ ) كے ہاں اقتدا ( يعنى مقتدى كے ليے امام كى اقتدا كرنا ) صحيح ہونے ميں شرط يہ ہے كہ مقتدى امام كے كھڑے ہونے والى جگہ سے آگے نہ ہو….
اور آگے يا پيچھے ميں مقتدى كى ايڑى كا اعتبار كيا جائيگا جو كہ پاؤں كا آخرى حصہ ہے نہ كہ ٹخنہ، چنانچہ اگر امام اور مقتدى ايڑيوں ميں برابر ہوں ا ور مقتدى كے پاؤں لمبے ہونے كى بنا پر اس كى انگلياں آگے ہوں تو اس ميں كوئى نقصان نہيں….. اور آگے ہونے ميں معتبر بيٹھے ہوئے اشخاص كے ليے ان كے سرين، اور ليٹے ہوئے كے ليے پہلو ہو گا " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 6 / 21 ).
اس ليے اگر نمازى ابتدا سے ہى كرسى پر بيٹھ كر نماز ادا كرے گا تو وہ اپنے بيٹھنے والى جگہ كو صف كے برابر كرے گا.
اور اگر وہ كھڑا ہو كر نماز ادا كرے گا ليكن ركوع اور سجدہ كے وقت كرسى پر بيٹھے گا تو اس كے متعلق ہم نے فضيلۃ الشيخ عبد الرحمن البراك سے دريافت كيا تو انہوں نے ہميں بتايا كہ يہاں صف ميں كھڑا ہونے كا اعتبار ہو گا، چنانچہ وہ كھڑا ہوتے وقت صف ميں برابر كھڑا ہو گا.
اس بنا پر كرسى صف كے پيچھے ہو گى، اس ليے وہ ايسى جگہ ہو جہاں وہ پيچھلى صف كے نمازيوں كو اذيت نے دے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات