لواطت وغیرہ کرنے کے بعد اس سےتوبہ کرنے اوراس گناہ کوترک کرنے والوں کے بارہ میں اسلام کی راۓ کیا ہے ؟
کیا انہیں رجم کرنا واجب ہے ، کیا ان کی بخشش ممکن ہے ، اورکیا وہ دوسری جنس سے شادی کرسکتے ہیں ؟
کیا لواطت کرنے والوں کی بخشش ہوسکتی ہے اورکیا وہ شادی کرسکتا ہے ؟
سوال: 5177
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
بلاشبہ لواطت ایک بہت بڑی معصیت بلکہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے جسے اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے اورلوط علیہ السلام کی قوم نے بھی جب یہ شنیع اورقبیح جرم کرنا نہ چھوڑا اوراپنی سرکشی میں حد سے گزر گۓ تواللہ تعالی نے انہیں کئي قسم کی عبرتناک سزائيں دے کر ھلاک کردیا ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اورجب ہمارا حکم آپہنچا توہم نے اس بستی کوزیروزبر کردیا اوپر کا حصہ نیچے کردیا ، اور ان پر تہ بہ تہ کنکریلے پتھر برساۓ جوتیرے رب کی طرف سے نشان دار تھے ھود ( 81 – 83 ) ۔
پھر اللہ تعالی نے دھمکاتے ہوۓ یہ بات فرمائي کہ ان کے بعد جوبھی ان جیسا کام کرے گا :
اورظالموں سے وہ کوئي دور بھی نہ تھے ھود ( 83 ) ۔
اورایک مقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :
اوران ( لوط علیہ السلام ) کوان کے مہمانوں کے بارہ میں پھسلایا تو ہم نے ان کی آنکھیں اندھی کردیں ( اورکہا ) میرا عذاب چکھو ، اوریقینی بات ہے کہ انہیں صبح سویرے ہی ایک جگہ پکڑنے والے مقرر ہ عذاب نے غارت کردیا القمر ( 37 – 38) ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کچھ اس طرح ہے :
( جسے بھی تم قوم لوط والا فعل کرتےہوۓ پاؤ توفاعل ( کرنے والے ) اورمفعول ( جس کے ساتھ کیا جاۓ ) دونوں کوقتل کردو ) مسند احمد حدیث نمبر ( 2727 ) ، اور علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع الصغیر و زیادتہ حدیث نمبر ( 6589 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا :
( فاعل اورمفعول کوقتل کردو ) اسے سنن اربعہ نے روایت کیا اوراس کی سند صحیح ہے امام ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے ۔
ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی اسی حکم کوجاری کرتےہوۓ صحابہ کرام سے مشورہ کے بعد خالد رضی اللہ تعالی عنہ کوطرف یہی حکم لکھا تھا اوراس مسئلہ میں سب سے سخت تھے ۔
ابن قصار اورہمارے شيخ کا کہنا ہے کہ : صحابہ کرام کا ایسے شخص کے قتل پر اجماع ہے ، لیکن صرف اسے قتل کرنے کی کیفیت میں ان کا اختلاف ہے :
ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ اسے بلندی سے گرا دیا جاۓ ۔
اورعلی رضی اللہ تعالی عنہ کا کہنا ہے : اس پر دیوار گرا دی جاۓ ۔
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں : ان دونوں کوپتھروں سے ہلاک کیا جاۓ ۔
تواس طرح صحابہ کرام اس کے قتل کرنےمیں تو متفق ہیں لیکن صرف قتل کی کیفیت میں اختلاف را ۓپایا جاتا ہے ، جوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے محرم کے ساتھ زنا کرنے والے کے حکم کے بھی موافق ہے ، اس لیے کہ دوجگہوں پر وطی کسی بھی حال میں جائز نہیں ۔
اوراسی لیے اسے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی حدیث میں جمع کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( تم جسے بھی قوم لوط والا عمل کرتے ہوۓ پاؤ اسے قتل کردو ) ۔[
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی روایت کی ہے کہ :
( جوبھی محرم کے ساتھ وطی کرے اسےقتل کردو ) ۔
اورایک حدیث میں اس طرح کے الفاظ ہیں :
( جوبھی کسی چوپاۓ کےساتھ وطی کرے اسے قتل کردو اوراس چوپاۓ کوبھی اس کے ساتھ قتل کرو ) مسنداحمد حدیث نمبر ( 2420 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 4464 ) سنن ترمذی حدیث نمبر( 1454 ) مستدرک حاکم ( 4 / 355 ) ۔
اورپھر یہ ( قتل کا ) حکم شارع کے بھی موافق ہے اس لیے کہ محرمات جتنی بھی سخت اوربڑھی ہوں گی اس کے اعتبارسے سزا بھی بڑھ جاۓ گی اورسخت ہوگی ، توجس کے ساتھ کسی بھی حال میں وطی حلال نہیں اس کے ساتھ وطی کرنا بہت زیادہ شنیع اورسخت جرم ہوگا بالمقابل اس کے جس کے ساتھ بعض اوقات وطی کرنا حلال بھی ہوجاتا ہے ۔
امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے ایک روایت میں اس پر نص بھی بیان کی ہے ۔ دیکھیں زاد المعاد ( 5 / 40 – 41 ) ۔
اوراسی طرح ۔۔۔۔۔ جیسے فحش کام کا بھی معاملہ ایسا ہی ہے ، اس میں کوئي شک نہیں کہ یہ کام حرام اورکبیرہ گناہ ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے اس پر نص بھی بیان کی ہے ۔ دیکھیں الموسوعۃ الفقھیۃ ( 24 /251 )
اوررہا مسئلہ سوال میں مذکور حد ( یعنی موت تک اسے رجم کرنا ) کا تو اس کے بارہ میں گزارش ہے کہ اس طرح کی حد توشادی شدہ زانی کے متعلق ہے ، لیکن لواطت کے جرم کی شرعی حد توقتل ہے ( اورراجح یہ ہے کہ اسے تلوار کےساتھ قتل کیا جاۓ ) جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے ۔
لیکن اس قتل کی کیفیت میں اختلاف بھی اوپر بیان ہوا اب رہا مسئلہ ۔۔۔۔ کا تواس میں حد نہیں بلکہ تعزیر ہے ۔ دیکھیں الموسوعۃ الفقھیۃ ( 24 / 253 ) ۔
لیکن اگر اس جرم کا مرتکب یا پھر جوجرم بھی حد واجب کرنے والا ہے اس سے توبہ کرلے اوراس گناہ کوچھوڑ کراستغفار کرتا ہوا اپنے کیے پر نادم بھی ہو اوریہ عھد کرے کہ وہ اس کام کودوبارہ نہیں کرے گا تواس کے بارہ میں شيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی سے سوال کیا گیاتو ان کا جواب تھا :
( اگروہ اللہ تعالی کی جانب صحیح طور پر رجوع کرتا اورسچی توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے لیکن اگر وہ اپنے گناہ کا اعترا ف کرلے اور اس پر حد قائم کردی جاۓ ) مجموع الفتاوی ( 34 / 180 ) ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اوروہ لوگ جواللہ تعالی کے ساتھ کسی دوسرے معبود کونہیں پکارتے اورکسی ایسے شخص کوجسے اللہ تعالی نے قتل کرنا حرام قرار دیا اسے وہ حق کے سوا قتل نہیں کرتے ، اورنہ ہی وہ زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور جوکوئ یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لاۓ گا ۔
اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب دیا جاۓ گا اوروہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی عذاب میں رہے گا ، سواۓ ان لوگوں کے جوتوبہ کریں اورایمان لائيں اورنیک وصالح اعمال کریں ، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالی نیکیوں سے بدل دیتا ہے ، اوراللہ تعالی بخشنے والا اورمہربانی کرنے والا ہے ، اورجوتوبہ کرلے اوراعمال صالحہ کرے توبلا شبہ وہ حقیقتااللہ تعالی کی طرف سچی توبہ اوررجوع کرتا ہے } الفرقان ( 68 – 71 ) ۔
اگر وہ اللہ تعالی کی طرف صحیح اورسچی توبہ کرے تو اس میں کوئي مانع نہیں کہ وہ شادی کرے جو کہ اس پر اپنے آپ کوعفت وعصمت میں رکھنے پر ممد ومعاون ثابت ہوگي ، اوراس میں اللہ تعالی کے حلال کردہ کی اتباع بھی ہے ۔
اورسب سے زيادہ علم تو اللہ تعالی کے پاس ہی ہے اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتیں نازل فرماۓ ،آمین یارب العالمین ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد