میں نے ایک مطلقہ عورت سے شادی کی ہے اوراس کا پہلے خاوند سے تین برس کا بچہ بھی ہے ، ہماری شادی سے لیکر آج تک بچے کے والد نے بچے کوماں کے پاس رات گزارنے کی اجازت نہيں دی اورنہ ہی وہ زیادہ ملنے ہی دیتا ہے ، ہم نے اسے کہا کہ اہل علم سے فیصلہ کرواتے ہيں لیکن وہ بچے کی دیکھ بھال کرنا چاہتا ہے اورافسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ قرآن وسنت کا بھی پابند نہيں ۔
بچہ روتا ہے اورجب جانے وقت ہوتواسے غصہ کی بنا پر عصبیت سی آجاتی ہے ، وہ اپنی زبان سے کہتا ہے حالانکہ اس کی عمر صرف تین برس ہے سبحان اللہ میں اپنے والد کے ساتھ نہیں جانا چاہتا ۔
اس میں یہ بات روز بروز زیادہ ہوتی جارہی ہے ، اس لیے ہم نے بیوی کے حق کے لیے عدالت میں جانے کا سوچنا شروع کردیا ہے ( اللہ تعالی ہمیں اس سے بچا کررکھے ) ۔
اگرکوئي واضح اورظاہر دلیل ہے کہ ماں کوزيارت کا حق حاصل ہے ، یاپھر صحابہ کرام میں سے کسی ایک کا اپنی مطلقہ بیوی اوربچے کی دیکھ بھال اورحق کے واقعہ وغیرہ ہے کہ انہوں نے ایسی حالت میں کس طرح تصرف کیا تووہ ہمیں بتائيں ہمیں امید ہے کہ آپ ہمارا تعاون فرمائيں گے ہمیں بہت زيادہ پریشانی ہے ، اللہ تعالی آپ کوجزاۓ خیرعطا فرماۓ ۔
طلاق کے وقت بچے کازيادہ حقدار کون ہے ماں یا باپ ؟
سوال: 5234
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
الحمدللہ
ملنا ملانا بھی تربیت کی ایک قسم ہے جوکہ بچہ والدین کی پرورش میں ہی سیکھتا ہے اوران دونوں کی دیکھـ بھال اوراس کی اچھی تربیت کرنے سے بچے کا جسم بڑھتا اوراس کی عقل میں نمو اورپختگي آتی ہے اوروہ اپنے آپ کو پاکيزہ بنا کر زندگی کے لیے تیار کرتا ہے ۔
اورجب والدین کے درمیان علیحدگی ہوجاۓ اوران کا کوئي بچہ بھی ہو تواس صورت میں باپ سے زيادہ ماں کو بچے کا حق ہے جب تک کہ کوئي مانع نہ پایا جاۓ اوریا پھر بچے میں کوئي وصف ہوجواختیار کا تقاضہ کرے ۔
باپ کے مقابلہ میں ماں کومقدم کرنے کا سبب یہ ہے کہ ماں کوہی بچے کی پرورش اوررضاعت کا حق حاصل ہے ، اس لیے کہ وہ بچے کی تربییت کرنا زيادہ جانتی ہے اوراسے اس پر قدرت بھی زيادہ حاصل ہوتی ہے اوراسی طرح اس معاملے میں صبرکرنے کی بھی گنجائش ہوتی ہے جوکہ مرد کے پاس نہیں ۔
اوراسی طرح ماں کے پاس تربیت کے لیے وقت بھی زیادہ ہوتا ہے جو کہ مرد کے پاس نہيں اس لیے بچے کی مصلحت کومد نظر رکھتے ہوۓ ماں کوپرورش اورتربیت کے لیے مقدم کیا گیا ہے ۔
عبداللہ بن عمرو رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا :
اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ اس بچے کے لیے میرا پیٹ ایک برتن بنا رہا ، اورمیری گود اس کے لیے حفاظت کی جگہ رہی اورمیرا سینہ اس کے لیے خوراک مہیا کرتا رہا ، اوراب اس کا والد سے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے ۔
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جب تک تونکاح نہ کرلے اس کی توہی زيادہ حقدار ہے ۔ مسند احمد ( 2/ 182 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2276 ) مستدرک الحاکم ( 2 / 225 ) امام حاکم رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوصحیح کہا ہے ۔
یحیی بن سعید کہتے ہیں کہ میں نے قاسم بن محمد سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس ( بیوی ) ایک انصاری عورت تھی جس سے ان کے بیٹے عمر بن عاصم پیدا ہوۓ ، پھربعد میں عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے اس عورت کوچھوڑ دیا ، ایک دفعہ عمر رضي اللہ تعالی عنہ قبا گۓ تواپنے بیٹے عاصم کومسجد کے صحن میں کھیلتے ہوۓ پایا تواسے بازو سے پکڑ کراپنے ساتھ سواری پر سوار کرلیا
اتنی دیر میں بچے کی نانی عمر رضي اللہ تعالی عنہ تک آ پہنچی اوربچے کولینے کی کوشش کرنے لگی حتی کہ دونوں ابوبکرصدیق رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس آۓ ۔
اورعمر رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے : میرا بیٹا ہے ، اورعورت کہنے لگی یہ بیٹا میرا ہے ، توابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : آپ اسے اس عورت کو دے دیں توعمر رضي اللہ تعالی عنہ نے ان سے کوئي بات بھی نہ کی ۔ امام مالک رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوموطا میں روایت کیا ہے ( 2 / 767 ) سنن بیھقی ( 8 / 5 ) ۔
ابن عبدالبر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ یہ حدیث منقطع اورمتصل دونوں طریق سے مشہور ہے اوراہل علم نے اسے قبول کا درجہ دیا ہے ۔
اوربعض روایات میں ہے کہ ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ نے فرمایا :
ماں زيادہ مہربان اوررحم کرنے والی اورنرم دل ، زيادہ محبت کرنے والی ، زيادہ لائق اور جب تک شادی نہ کرلے وہ بچے کی زيادہ حقدار ہے ۔
اورابوبکررضي اللہ تعالی عنہ نے جویہ فرمایا تھا کہ ماں زيادہ مہربان اوررحمدل ہوتی ہے ، اسی علت اورسبب سے ماں چھوٹے بچے کی زيادہ حقدار ہے ، واللہ تعالی اعلم ۔ .
ماخذ:
دیکھیں فقہ السنۃ ( 2 / 289 - 290 ) ۔