ميں نے سنا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فلسطين كا الخليل نامى علاقہ بنو تميم كو عطا كيا تھا، اور ان كے ليے اس كا معاہدہ بھى لكھا تھا اس كے گواہوں ميں عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ بھى تھے، اور بنو تميم آج تك الخليل ميں بس رہے ہيں، اور اپنا وقف كا حق اپنے پاس ركھے ہوئے ہيں، كيا يہ بات صحيح ہے، باوجود اس كے كہ اس وقت فلسطين مسلمانوں كے پاس نہيں تھا ؟
كيا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تميم دارى رضى اللہ تعالى عنہ كو فلسطين ميں وقف عطا كيا تھا ؟
سوال: 52606
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
كئى روايات ميں بيان ہوا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تميم دارى رضى اللہ تعالى عنہ كو بيت حبرون جسے آج الخليل كا نام ديا جاتا ہے، بطور عطيہ عطا كيا تھا.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں:
تميم بن اوس بن خارجۃ ابو رقيۃ الدارى رضى اللہ تعالى عنہ عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كى شھادت كے بعد شام كى طرف منتقل ہو گئے اور بيت المقدس ميں رہائش اختيار كر لى، انہوں نے نو ھجرى ميں اسلام قبول كيا تھا.
يعقوب بن سفيان كہتے ہيں:
ان كا كوئى بيٹا نہيں تھا صرف ايك بيٹى تھى جس كا نام رقيۃ تھا.
اور كئى ايك طريق سے وارد ہے كہ نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں بيت حبرون نامى زمين عطا كى تھى.
ديكھيں: تھذيب التھذيب ( 1 / 449 ). اختصار كے ساتھ
اور معجم البلدان ميں ہے كہ:
بيت المقدس كے علاقہ ميں حبرون ايك بستى كا نام ہے جس ميں ابراہيم خليل عليہ السلام كى قبر ہے، جس پر الخليل كا نام غالب آچكا ہے.
تميم دارى رضى اللہ تعالى عنہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس تشريف لائے اور ان سے درخواست كى كہ انہيں حبرون كا علاقہ دے ديا جائے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كى درخواست منظور فرماتے ہوئے انہيں ايك خط لكھ ديا، جس ميں تھا:
بسم اللہ الرحمن الرحيم
يہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف سے تميم دارى اور ان كے ساتھيوں كو ديا گيا ہے:
ميں نے تمہيں بيت عينون اور بيت حبرون اور مرطوم اور بيت ابراہيم ان كى ذمہ دارى اور جو كچھ اس ميں ہے تمہيں ديا، يہ خالص عطيہ ہے، اور يہ نافذ كر ديا گيا اور يہ ہميشہ ہميشہ كے ليے ان اور ان كے بعد آنے والوں كے سپرد كر ديا گيا ہے.
لھذا جس نے بھى اس ميں انہيں اذيت دى تو اس نے اللہ تعالى كو اذيت دى، اس پر ابوبكر بن ابى قحافہ اور عمر اور عثمان و على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہم اجمعين گواہ ہيں. اھـ اختصار كے ساتھ
ديكھيں: معجم البلدان ( 2 / 212 ).
اور اس وقت فلسطين مسلمانوں كے پاس نہ تھا، بلكہ روميوں كى حكومت ميں شامل تھا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فتح ہونے كے بعد ان كے ليے عطيہ كيا تھا، تو يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى جانب سے ان كے ليے ايك بشارت كى طرح تھى كہ اسے مسلمان فتح كريں گے.
اور پھر جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے دور ميں فتح ہوا تو انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا وعدہ پورا كيا، تو اس علاقے كو تميم دارى رضى اللہ تعالى عنہ نے اپنى اولاد خيرات جس كى تحديد كردى تھى كے ليے وقف كر ديا.
فلسطين كى سرزمين پر اسلام كا يہ سب سے پہلا وقف تھا، مقدسى رحمہ اللہ تعالى نے اپنى كتاب " احسن التقاسيم فى معرفۃ الاقاليم" ميں بيان كيا ہے كہ:
يہاں ايك مستقل مہمان خانہ ہے جس ميں باوچى اور نان بائى اور خدم كرنے والے موجود ہيں، جو الخليل شھر ميں ہر آنے جانے اور اس كى زيارت كرنے والے كو زيتون كے تيل كے ساتھ كھانا پيش كرتے ہيں، اور يہ كھانا اور مہمان نوازى تميم دارى رضى اللہ تعالى عنہ كے وقف ميں سے ہے.
اور قلقشندى رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے:
حمدانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اور خليل عليہ السلام كا شھر بنو تميم دارى رضى اللہ تعالى عنہ سے معمور ہے، اور بنو تميم كے پاس نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا لكھا ہوا خط اور رقعہ موجود ہے، جو انہوں نےتميم دارى رضى اللہ تعالى عنہ اور ان كےبھائيوں كو بيت حبرون عطيہ كرنے كے متعلق لكھ كر ديا تھا، بيت حبرون وہ الخليل شھراور اس كے كچھ علاقے ہيں.
ديكھيں: صبح الاعشى ( 1 / 47 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب