ہم انڈيا كے شہر نيوبمبئى ميں رہتے ہيں، اور ہمارے علاقے ميں مسلمانوں كى اكثريت ہے، ہم رمضان المبارك ميں زكاۃ اكٹھى كر کے سارا سال فقراء پر نقدى اور غلہ كى شكل ميں تقسيم كرتے رہتے ہيں، كيا ايسا كرنا جائز ہے ؟
كيا ماہانہ زكاۃ تقسيم كرنى جائز ہے، اور كيا زکاۃ غلہ كى شكل ميں دى جا سكتى ہے ؟
سوال: 52852
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
زكاۃ اور فطرانہ كے مال ميں سے كفار كو كچھ بھی دينا جائز نہيں، اور انہيں دينے سے انكى ادائيگى بھی نہيں ہوگى، ہاں اگر كافر تالیفِ قلب والوں میں سے ہو يعنى اگر آپ اسے زكاۃ دينے سے يہ اميد ركھتے ہوں كہ وہ اسلام قبول كر لے گا تو پھر اسے دے سكتے ہيں۔
مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر (39655 ) اور ( 21384 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں۔
دوم:
اگر مال ميں زكاۃ واجب ہو جائے تو اسے فورى طور پر نكالنا واجب ہے اور اس ميں تاخير جائز نہيں۔
چنانچہ ابن قدامہ المقدسى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
"اگر کوئی زكاۃ كى ادائيگى ميں تاخير اس ليے كرتا ہے تا کہ شدید ضرورتمند ، زیادہ حقدار عزیز واقارب میں تقسیم کریگا تو زکاۃ کے تھوڑے سے حصے میں ایسا کرنا جائز ہے، لہذا اگر زیادہ حصہ میں ایسا کریگا تو جائز نہیں ہوگا۔
"المغنى "( 2 / 290 )
اور دائمی فتوى كميٹى سے ايسى تنظيم كے متعلق سوال كيا گيا جو مالداروں سے زكاۃ اكٹھا كر كے تقريبا ايك برس تك كى مدت كے ليے تقسيم كرنے ميں تاخير كرتى ہے، اس دليل كى بنا پر كہ يہ رمضان وغيرہ كے ليے معاونت كا باعث ہے، تو اس تاخير كا حكم كيا ہے، حالانکہ زکاۃ دینے والوں نے اپنے وقت پر ہی ہماری ذمہ دارى ميں ڈال ديا تھا۔
كميٹى كا جواب تھا:
"اس تنظیم کو اگر مستحق افراد ملتے ہيں تو پھر تنظیم پر اسی وقت زكاۃ تقيسم كرنى واجب ہے، اور اس ميں تاخير نہيں كرنى چاہيے"
"فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء "( 9 / 402 )
آپ مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 13981) كا جواب ملاحظہ کریں۔
ليكن بعض اوقات فقير اور محتاج كو ايك ہى بار زكاۃ نہ دينے ميں مصلحت ہوتى ہے تا كہ وہ وہ سارى زكاۃ ہى خرچ نہ كر بيٹھے اور پھر بغير مال كے بيٹھا رہے، بلكہ اسے ماہانہ ادائيگى كى جائے گى۔
اس پر عمل كرنے كے ليے ايسا كرنا ہوگا كہ آپ ايسے مالدار لوگ تلاش كريں جو آپ كو ايك برس كى پيشگى زكاۃ دے ديں، تو اس طرح آپ آئندہ برس كى اب جمع كريں، اور پھر يہ زكاۃ ماہانہ قسطوں ميں محتاج اور فقراء كو ادا کی جائے، يا پھر آپ مالدار حضرات سے بھى زكاۃ قسطوں ميں پيشگى لے كر فقراء كو ماہانہ دے ديں، تو اس طرح زكاۃ واجب ہونے كے بعد فقراء تک پہنچنے میں تاخير نہيں ہو گى، اور اس كے ليے مالدار حضرات سے افہام و تفہيم كى ضرورت ہے، اور انہيں اس ميں مصلحت ہونے پر قائل بھی كيا جائے۔
چنانچہ ابن قدامہ المقدسى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
"احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں: زکاۃ دینے والے کے رشتہ داروں ميں ماہانہ قسط وار زكاۃ كى ادائيگى نہيں ہو گى، يعنى زكاۃ كى ادائيگى ميں تاخير نہ كرے کہ انہيں ہر ماہ اس زكاۃ ميں سے كچھ نہ كچھ ديتا رہے، ليكن اگر وہ پيشگى زكاۃ نكال كر رشتہ داروں میں يا دیگر مستحقین میں اكٹھى يا قسطوں ميں ادا كرے تو ايسا كرنا جائز ہے، كيونكہ اس نے زكاۃ كو وقت سے مؤخر نہيں كيا"انتہى
"المغنى " ( 2 / 290 )
دائمی فتوى كميٹى كے علماء كرام سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
كيا ميرے ليے فقير اور محتاج خاندان كو ماہانہ تنخواہ كى صورت ميں سال كى پيشگى تنخواہ نكالنا جائز ہے، كہ اسے ہر ماہ ادا كى جائے؟
تو كميٹى كا جواب تھا:
كسى مصلحت اور ضرورت كے پيش نظر سال پورا ہونے سے قبل ايك يا دو برس كى پيشگى زكاۃ نكالنے، اور اسے مستحقین كو ماہانہ ادئيگى كرنے ميں كوئى حرج نہيں ہے۔
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 422 ).
اور رہا مسئلہ غلہ كى صورت ميں زكاۃ كى ادائيگى كا تو اس كى تفصيل جاننے كے ليے آپ سوال نمبر ( 42542 ) كے جواب كا مطالعہ كريں۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات