ہم دينى كيسٹيں اور سى ڈيز كاپى كر كے تقسيم يا بہت ہى كم ريٹ پر فروخت كرتے ہيں تا كہ تقسيم كا خرچ پور كيا جا سكے، ليكن يہ كيسٹيں محفوظ ہيں، اور اس كا ہدف علم عام كرنا اور تبليغ كرنا ہے.
اسى طرح سى ڈيز بھى جن ميں بعض سى ڈيز ايسى ہوتى ہيں جس كے ليے قسم اٹھائى جاتى ہے كہ يہ اصلى ہيں، علم كو عام كرنے كے ليے اصلى نسخہ حاصل كرنا بہت مشكل اور مہنگا ثابت ہوتا ہے ؟
تقسيم كرنے كى غرض سے كيسٹيں اور سى ڈيز كاپى كرنا
سوال: 52903
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
حقوق تاليف، اور ايجاد، اور پروڈكٹ وغيرہ كے مالى اور معنوي حقوق اس كے مالكوں كے پاس محفوظ ہوتے ہيں، ان حقوق پر زيادتى كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى بغير اجازت انہيں چھونا چاہيے، اس ميں كيسٹيں، كتابيں، اور سى ڈيز بھى شامل ہيں.
اس ميں شيخ بكر بن عبد اللہ ابو زيد حفظہ اللہ كى كلام كو مدنظر ركھنا چاہيے جو انہوں نے حقوق الطبع اور تاليف كے متعلق اپنى كتاب ” فقہ النوازل ” ميں درج كى ہے.
ديكھيں: فقہ النوازل ( 2 / 101 – 187 ).
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا مالك كى اجازت كے بغير ميرے ليے كيسٹ كى كاپى كر كے فروخت كرنا جائز ہے، يا پھر اگر اس كا مالك فوت ہو چكا ہو خصوص جس كى يہ كسيٹيں ہوں ؟
اور كيا كوئى كتاب بہت زيادہ تعداد ميں فوٹو كر كے جمع كرنا اور فروخت كرنا جائز ہے ؟
اور كيا اسى طرح كوئى كتاب فروخت كرنے كے ليے نہيں بلكہ اپنے پاس محفوظ ركھنے كے ليے فوٹو كرنا جائز ہے، ان كتابوں پر حقوق الطبع محفوظ كى عبارت لكھى ہو تو كيا مجھے اجازت لينا ہوگى يا نہيں ؟
كميٹى كا جواب تھا:
” نفع مند كتب اور كيسٹوں كى كاپى كرنا اور اسے فروخت كرنے ميں كوئى مانع نہيں؛ كيونكہ ايسا كرنے ميں علم نشر كرنے اور اسے پھيلانے ميں اعانت ہوتى ہے، ليكن اگر اس كے مالك ايسا كرنے سے منع كرتے ہوں تو پھر ان كى اجازت حاصل كرنا ضرورى ہے ” انتہى
ماخوذ از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 187 ).
فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال بھى كيا گيا:
ميں كمپيوٹروں كا كام كرتا ہوں، اور جب سے يہ كام شروع كيا ہے پروگرام كى كاپى كرنى شروع كر دى ہے تا كہ كپيوٹر كا كام كيا جا سكے، اور يہ كاپى اصلى نسخہ خريدے بغير ہى كر ليتا ہوں، يہ علم ميں رہے كہ اس پروگرام اور سوفٹ وير پر عبارت لكھى ہوتى ہے كہ اس كى كاپى كرنا ممنوع ہے، اور اسے كاپى كرنے كے حقوق محفوظ ہيں ( جو كہ حقوق الطبع محفوظ ہيں ) جو بعض كتاب پر لكھى گئى عبارت كے مشابہ عبارت لكھى ہوتى ہے، بعض اوقات اس پروگرام كا مالك مسلمان ہوتا ہے، اور بعض اوقات مسلمان، ميرا سوال يہ ہے كہ كيا اس طريقہ پر اس پروگرام كى كاپى كرنا جائز ہے يا نہيں ؟
كميٹى كا جواب تھا:
” جس پروگرام كى كاپى كرنے سے مالك نے منع كر ركھا ہو اسے ان كى اجازت كے بغير كاپى كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” مسلمان اپنى شروط پر قائم رہتے ہيں ”
اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان بھى ہے:
” جو كوئى كسى مباح كى طرف سبقت لے جائے تو وہ اس كا زيادہ حقدار ہے ”
چاہے اس پروگرام كا مالك مسلمان ہو يا غير حربى كافر؛ كيونكہ غير حربى كافر كا حق بھى اسى طرح قابل احترام ہے جس طرح كہ ايك مسلمان كا حق ” انتہى
ماخوذ از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 188 ).
اسى طرح اسلامى فقہ اكيڈمى كى بھى حقوق معنويہ كے متعلق خاص قرار جارى ہوئى ہے جس ميں درج ہے كہ:
” اول:
تجارتى نام، تجارتى ايڈريس، ٹريڈ مارك، تاليف، اور ايجاد، يا ايجاد ميں پہل كرنا، يہ سب اس كے مالكوں كے خاص حقوق ہيں، دور حاضر كے عرف عام ميں ان كى ايك مالى قيمت اور قدر مقرر ہے جس سے لوگ مالى فائدہ حاصل كرتے ہيں، اور شرعا ان حقوق كو شمار كيا جائيگا، تو ان حقوق پر زيادتى كرنى جائز نہيں.
…..
سوم:
حق تاليف، حق ايجاد يا سبقت لےجانا شرعا محفوظ ہيں، اور اس ميں ان كے مالكوں كو ہى تصرف كرنے كا حق حاصل ہے، ان پر كسى اور كو زيادتى كرنے كا حق حاصل نہيں ” ا نتہى مختصرا.
اور اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ كيسٹوں اور سى ڈيز كے مالكوں اور اسے تيار كرنے والوں نے اس كى تيارى ميں محنت كرتے ہوئے اپنا مال اور وقت بھى صرف كيا ہے، اور شريعت ميں كوئى ايسى دليل نہيں ملتى جو انہيں اس كے نتيجہ ميں حاصل ہونے والے نفع كو حاصل كرنے سے روكتى ہو، اس طرح ان كے حقوق پر زيادتى كرنے والا شخص ان پر ظلم كريگا اور ان كا مال ناحق طريقہ سے كھانے والوں ميں شامل ہوگا.
پھر اگر ان حقوق پر زيادتى كرنا مباح كر ديا جائے تو يہ كمپنياں اپنى پروڈكٹ، اور ايجاد، اور آگے بڑھنے ميں ناكامى كا سامنا كرينگى، كيونكہ انہيں ان كا پھل نہيں ملےگا، بلكہ بعض اوقات ايسا وقت بھى آسكتا ہے كہ ان كے پاس اپنے ملازمين كو تنخواہ دينے كے ليے بھى كچھ نہ رہے، اور بلاشك اس عمل كا رك جانا لوگوں كو بہت سارى خير سے روك ديگا، تو اس ليے يہ مناسب ہے كہ اہل علم ان حقوق پر زيادتى كرنے كى حرمت كا فتوى ديں.
يہ تو اس كے اصل كے اعتبار سے حكم تھا، ليكن بعض اوقات ايسے حالات پيش آ سكتے ہيں جن ميں مالك كى اجازت كے بغير ہى كاپى اور فوٹو كرنا جائز ہو جاتا ہے، اور يہ دو حالتوں ميں ہے:
1 – جب ماركيٹ ميں نہ ہو، اور ضرورت كى بنا پر كاپى كى جائے، اور خيراتى تقسيم كے ليے ہو اور فروخت كر كے اس سے كچھ بھى نفع نہ حاصل كيا جائے.
2 – جب اس كى ضرورت بہت شديد ہو، اور اس كے مالك بہت زيادہ قيمت وصول كريں، اور انہوں نے اپنے اس پروگرام پر خرچ آنے والى رقم ايك مناسب نفع كے ساتھ وصول كر لى ہو، يہ سب تجربہ كار لوگ جانتے ہيں، تو اس وقت جب مسلمانوں كى مصلحت اس سے معلق ہو تو اسے كاپى كرنا جائز ہے، تا كہ نقصان كو دور كيا جا سكے، ليكن شرط يہ ہے كہ اسے ذاتى مفاد كے ليے فروخت نہ كيا جائے.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
آپ كے ليے اس سلسلے ميں اسے تيار كرنے والى بعض كمپنيوں كے ساتھ رابطہ كرنا ممكن ہے، اور آپ انہيں يہ بتا سكتے ہيں كہ آپ كا ہدف خيراتى طور پر تقسيم كرنا ہے، تا كہ وہ آپ كو كاپى كرنے كى اجازت دے ديں، يا پھر آپ كو كمر اور مناسب ريٹ پر فروخت كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب