ايك مسلمان شخص نے جرمنى كى ايك مسجد ميں ايك مسلمان عورت سے شادى كى اور بعد ميں اسے طلاق ہو گئى اور طلاق كا اسٹام بھى مل گيا، ليكن جب يہ عورت كسى عرب ملك ميں مسلمان شخص سے شادى كرنے لگى تو اس عرب ملك كا سركارى ادارہ اس طلاق كو تسليم نہيں كرتا كيونكہ طلاق كے پيپر پر گواہوں كے نام نہيں ہيں.
جرمنى كى جس مسجد ميں نكاح ہوا وہ بھى موجود نہيں، اور اس كا پہلا خاوند بھى وہاں سے چلا گيا ہے اور عورت كو اس كا ايڈريس بھى معلوم نہيں، اب يہ عورت شادى كرنے كے ليے كيا كرے ؟
0 / 0
5,98020/01/2011
كسى دوسرے ملك ميں طلاق ہوئى اور سركارى ادارہ طلاق كا اسٹام تسليم نہيں كرتا
سوال: 5373
جواب کا متن
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ہم نے يہ سوال فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح العثيمين حفظہ اللہ كے سامنے پيش كيا تو ان كا جواب تھا:
جى ہاں يہ اسلامى مركز كے ذريعہ كى بجائے بھى شادى كر سكتى ہے، ليكن يہ ضرروى ہے كہ يہ شادى اس كا ولى كرے ( اور اس ميں نكاح كى باقى شروط پائى جائيں اس كى ليے آپ سوال نمبر (2127 ) كے جواب كا مطالعہ كريں )، اور دوسرى شرط يہ ہے كہ اس عورت كى عدت ختم ہو چكى ہو.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد
متعلقہ جوابات