ميں ہميشہ بروقت نماز ادا كرنے كى كوشش كرتى ہوں، ميرا ڈيڑھ برس كا بچہ ہے بعض اوقات نماز ادا كرتے وقت اس كا خيال ركھنے والا كوئى نہيں ہوتا، مشكل يہ جب ميں اس كے قريب نماز ادا كروں تو وہ ميرے آگے بيٹھ كر ميرى نماز خراب كرتا ہے.
ميرا سوال يہ ہے كہ كيا اس كے ايسا كرنے سے ميرى نماز قبول ہوتى ہے يا نہيں ؟
كيا اس بنا پر نماز ميں تاخير كرنى افضل ہے اور بعض اوقات اس كا وقت نكل جائے تو بعد ميں قضاء كرتى ہوں ؟
بچہ نماز ميں تنگ كرتا ہے
سوال: 5485
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مسلمان كے ليے بروقت نماز ادا كرنى واجب ہے، اور بغير كسى عذر كے نماز ميں تاخير كرنى حتى كہ نماز كا وقت ہى جاتا رہے جائز نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا ارشاد ہے:
يقينا مؤمنوں پر نماز وقت مقررہ پر ادا كرنى فرض كى گئى ہے .
يعنى اس كا وقت ہے جس سے نہ تو تاخير ہو سكتى ہے اور نہ ہى وقت سے قبل ادا كى سكتى ہے، اور پھر نماز كى شروط ميں وقت سب سے زيادہ بڑى شرط ہے، اگر كوئى شخص نماز كى بعض شروط سے عاجز ہو تو وہ نماز كے وقت ميں ہى حسب استطاعت نماز ادا كرے گا، ليكن اس ميں تاخير نہيں كر سكتا، اس كى دليل يہ ہے كہ شريعت اسلاميہ نے نماز كے وقت كو بہت اہميت دى ہے اور اس كا اہتمام كيا ہے كہ؛ اگر مسلمان شخص كو پانى نہ ملے تو وہ تيمم كر كے نماز ادا كر لے، چاہے اسے يقين بھى ہو كہ نماز كا وقت نكل جانے كے بعد اسے پانى حاصل ہو جائيگا.
رہا مسئلہ يہ كہ ماں نماز ادا كر رہى ہو اور بچہ آگے سے گزر جائے تو اس كى نماز باطل ہو گى يا نہيں تو اس سے نماز فاسد نہيں ہوتى اور نہ ہى باطل ہو گى، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے ايك بچى كو اٹھا كر نماز پڑھائى جب كھڑے ہوتے تو اسے اٹھا ليتے، اور جب سجدہ كرتے تو اسے زمين پر بٹھا ديتے.
جيسا كہ بخارى اور مسلم ميں ابو قتادہ انصارى رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى نواسى امامہ بنت زينب كو اٹھا كر نماز پڑھائى جو ابوالعاص بن ربيعہ بن عبد شمس كى بيٹى تھى، چنانچہ جب سجدہ كرتے تو اسے نيچے بٹھا ديتے اور جب كھڑے ہوتے تو اسے اٹھا ليتے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 486 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 844 ).
اور اسى طرح يہ بھى ثابت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے كہ ايك بچہ ان كى كمر پر چڑھ گيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسى حالت ميں نماز مكمل كى.
عبد اللہ بن شداد اپنے والد سے بيان كرتے ہيں وہ كہتے ہيں كہ:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم عشاء كى نمازوں ميں سے ايك نماز پڑھانے كے ليے ہمارے پاس آئے تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے حسن يا حسين رضى اللہ تعالى عنہما كو اٹھايا ہوا تھا، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم آگے آئے اور انہيں بٹھا كر نماز كے ليے تكبير كہہ دى اور نماز پڑھانے لگے، اور اپنى نماز ميں سجدہ كيا تو اسے بہت لمبا كر ديا.
ميرے والد كہتے ہيں: ميں نے اپنا سر اٹھايا تو بچہ رسول كريم صلى اللہ وسلم كى كمر پر سوار تھا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سجدہ ميں تھے لہذا ميں بھى دوبارہ سجدہ ميں چلا گيا، جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز مكمل كى تو لوگ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كہنے لگے:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ نے اپنى نماز ميں سجدہ اتنا لمبا كر ديا كہ ہم گمان كرنے لگے كہ كوئى واقع اور حادثہ پيش آ گيا ہے، يا پھر آپ پر وحى نازل ہو رہى ہے.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے: ايسا تو كچھ بھى نہيں تھا، بلكہ ميرا بيٹا ميرى كمر پر سوار ہوا تو ميں نے اسے اپنى حاجت اور ضرورت پورى كيے بغير جلد اتارنا مناسب نہ سمجھا ”
سنن نسائى حديث نمبر ( 1129 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى ( 1 / 246 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اس ليے اگر آپ اپنے بچے كو نماز ميں اٹھا ليں يا اسے بٹھا ديں تو اس ميں كوئى حرج نہيں اور آپ كى نماز كو كچھ نقصان اور ضرر نہيں ہو گا، آپ بروقت نماز ادا كرنے كى حرص ركھيں اور كوشش كريں.
اللہ تعالى ہميں اور آپ كو ہر خير وبھلائى كے كام كرنے كى توفيق عطا فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد