جہاد ميں جانے كے ليے والدين كى اجازت لينى كب واجب ہوتى ہے؟
كيا اجازت اس وقت لى جاتى ہے جب كہ والدين كم عمر ہوں، يا مالدار ہوں اور بہت زيادہ مال و دولت كے مالك ہوں؟ اور كيا پھر بھى اجازت كى ضرورت ہے ؟
جہاد ميں جانے كےليے اجازت طلب كرنے كا حكم
سوال: 5493
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اصلا تو جہاد فرض كفايہ ہے كہ امت كے كچھ افراد جہاد كريں تو باقى سے گناہ ساقط ہو جاتا ہے، لھذا جب جہاد فرض كفايہ ہو تو جہاد ميں جانے سے قبل مجاہد كےليے اجازت لينا واجب ہے، اس ليے اگر اس كے والدين مسلمان ہوں تو ان سے اجازت لينى واجب ہے، چاہے وہ غنى اور مالدار ہوں يا نہ؛ كيونكہ اس سلسلے ميں واردہ شدہ نصوص واضح اور صريح ہيں.
صحيحين ميں عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ ايك شخص نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے جہاد ميں جانے كى اجازت طلب كى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” كيا تيرے والدين زندہ ہيں؟
اس نے جواب ديا: جى ہاں
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” تو ان دونوں ميں جہاد كرو”
اور امام احمد، ابو داود اور ابن حبان نے ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يمن سے ہجرت كرنے والے ايك شخص كو والدين كى بنا پر واپس بھيج ديا اور اسے فرمايا:
” كيا انہوں نے تجھے اجازت دى ہے؟
تو اس نے كہا: نہيں
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” ان كے پاس واپس جاؤ اور اجازت طلب كرو اگر تو وہ اجازت دے ديں تو جہاد كرنا وگرنہ ان كے ساتھ حسن سلوك كرو”
يہ تو اس وقت ہے جب جہاد فرض عين نہ ہو بلكہ فرض كفايہ ہو، اور جب جہاد فرض عين ہو جائے تو پھر اجازت طلب كرنى واجب نہيں، كيونكہ فرض عين والے امور ميں كسى ايك سے بھى اجازت طلب نہيں لى جاتى.
اور جہاد اس وقت فرض عين ہوتا ہے جب كوئى شخص ميدان جہاد مين دشمن كے سامنے صف آراء ہو، يا پھر دشمن مسلمانوں كے علاقے پر دھاوا بول ديں، يا امام اور خليفہ اور امير جہاد كو فرض عين كردے، يا لڑائى كے ليے نكلنے كا كہے، يا واقع كے اعتبار سے اس پر فرض عين ہو جائے، مثلا وہ عسكرى امور كا ماہر ہو يا كسى اسلحہ كا ماہر ہو جس كى مجاہدين كو ضرورت ہو اور وہ اس كے محتاج ہوں، اور اس كے علاوہ كوئى اور اس كام كو بہتر طريقہ سے انجام نہ دے سكتا ہو.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد