صحيح بخارى ميں حديث ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم دو قبروں كے پاس سے گزرے اور فرمايا:
" ان دونوں كو عذاب ديا جا رہا ہے، اور انہيں كسى بڑى چيز كى بنا پر عذاب نہيں ہو رہا، يا يہ فرمايا: پھر فرمايا: كيوں نہيں، ان ميں سے ايك شخص تو پيشاب سے بچتا نہيں تھا، اور دوسرا شخص چغلى اور غيب كرتا تھا "
اور صحيح مسلم ميں بھى يہى حديث وارد ہے، اور مسلم كى ايك روايت ميں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اور دوسرا شخص پيشاب سے بچتا نہيں تھا "
ميرا سوال يہ ہے كہ حديث ميں استتار اور تنزہ كا لفظ استعمال ہوا ہے اس ميں كيا فرق ہے، اور دونوں روايتوں ميں موافقت كيسے دى جا سكتى ہے ؟
حديث المعذبين ميں استتار اور تنزہ ميں فرق
سوال: 59934
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
يہ حديث صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مدينہ يا مكہ كے باغوں ميں سے ايك باغ كے پاس سے گزرے تو دو انسانوں كو ان كى قبر ميں عذاب ديے جانے كى آواز سنى تو نبى صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" ان دونوں كو عذاب ہو رہا ہے، اور انہيں عذاب كسى بڑى چيز كى بنا پر نہيں ہو رہا، پھر فرمايا: كيوں نہيں، ان ميں سے ايك شخص تو اپنے پيشاب سے بچتا نہيں تھا، اور دوسرا چغلى اور غيب كرتا تھا، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كھجور كى ايك سبز ٹہنى منگوائى اور اسے دو ٹكڑے كر كے ہر قبر پر ايك ٹكڑا ركھ ديا.
كسى نے عرض كيا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ نے ايسا كيوں كيا ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اميد ہے كہ جب تك يہ خشك نہ ہو گى يا ان كے خشك ہونے تك ان پر تخفيف كى جائيگى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 216 ) صحيح مسلم حديث نمبر( 292 )
اور مسلم كى ايك روايت ميں يہ الفاظ ہيں:
" لا يستنزہ عن البول او من البول "
اور نسائى كى روايت ميں ہے:
" لا يستبرئ من بولہ "
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح نسائى ميں اسے صحيح كہا ہے.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: " لا يستتر من بولہ " اس ميں تين روايات ہيں: " يستتر " دو تاء كے ساتھ اور " يستنزہ " زاء اور ہاء كے ساتھ اور " يستبرئ " باء اور ہمزہ كے ساتھ، يہ سب روايات صحيح ہيں اور ان كا معنى يہ ہے كہ وہ پيشاب كے چھينٹوں سے اجتناب اور احتراز نہيں كرتا تھا.
ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 3 / 201 ) اختصار كے ساتھ.
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
قولہ: " لا يستتر " اكثر روايات ميں ايسا ہى ہے، اور ابن عساكر كى روايت ميں " يستبرئ " كے لفظ ہيں، اور مسلم اور ابو داود كى اعمش سے مروى روايت ميں " يستنزہ " كے لفظ ہيں.
اكثر روايات كى بنا پر " يستتر " كا معنى يہ ہو گا كہ: وہ اپنے اور پيشاب كے درميان آڑ نہيں كرتا تھا يعنى وہ اس كے چھينٹوں حفاظت نہيں كرتا تھا، تو لا يستنزہ والى روايت كے موافق ہو جائيگا كيونكہ تنزہ ابعاد كو كہا جاتا ہے.
اور ابو نعيم كى المستخرج ميں وكيع عن الاعمش كے طريق سے روايت ميں ہے كہ: " لا يتوقع " اور يہ تفسير ہے كہ اس سے كيا مراد ہے، اور بعض علماء نے اسے اپنے ظاہر پر ہى ركھتے ہوئے كہا ہے كہ اس كا معنى ہے كہ: وہ اپنى شرمگاہ نہيں چھپاتا تھا ….
اور " الاستبراء " والى روايت تو بچاؤ كے اعتبار سے زيادہ بليغ ہے.
ابن دقيق العيد كہتے ہيں كہ: اگر استتار كو حقيقت پر محمول كيا جائے تو يہ لازم آتا ہے كہ صرف شرمگاہ ننگى كرنا ہى مذكورہ عذاب كا سبب ہے، اور حديث كا سياق و سباق اس كى دليل ہے كہ عذاب قبر كا باعث تو خاص پيشاب تھا، اس كى طرف اشارہ كرتا ہے جسے ابن خزيمہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى مرفوع حديث كو صحيح كہا ہے كہ:
" قبر كا اكثر عذاب پيشاب سے ہے "
يعنى پيشاب سے نہ بچنا عذاب قبر كا باعث ہے، وہ كہتے ہيں: اس كى تائيد حديث ميں " من " كے الفاظ سے ہوتى ہے، جب اس كى اضافت بول كى طرف ہوئى تو استتار كى نسبت جو معدوم تھى بول كى طرف ہے وہ عذاب كا سبب ہے.
دوسرے معنوں ميں اسطرح كہ: عذاب كا ابتدائى سبب پيشاب ہے، اور اگر اسے صرف شرمگاہ ننگى كرنے پر ہى محمول كر ليا جائے تو يہ معنى زائل ہو جائيگا، تو اسے مجاز پر محمول كرنا متعين ہوگيا تا كہ سب احاديث كے الفاظ ايك معنى پر جمع ہو جائيں، كيونكہ اس كا مخرج ايك ہى ہے، اور اس كى تائيد مسند احمد كى ابو بكرہ رضى اللہ تعالى عنہ والى حديث سے ہوتى ہے جو كہ ابن ماجہ ميں بھى ہے:
" ان ميں سے ايك كو پيشاب كى وجہ سے عذاب ہو رہا ہے "
اور طبرانى ميں بھى انس رضى اللہ تعالى عنہ سے اس جيسى ہى حديث ملتى ہے.
ديكھيں: فتح البارى ( 1 / 318 ).
صنعانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خبر دى كہ ان ميں سے ايك كے عذاب كا سبب يہ تھا كہ: " اس ليے كہ وہ پيشاب سے اجتناب اور بچاؤ اختيار نہيں كرتا تھا " يا اس ليے كہ وہ اپنے پيشاب سے پردہ نہيں كرتا تھا يعنى وہ اپنے اور اپنے پيشاب كے مابين آڑ نہيں كرتا تھا تا كہ چھينٹے پڑنے سے بچ سكے، يا اس ليے كہ وہ بچتا نہيں تھا، يہ سب الفاظ روايات ميں وارد ہيں، اور سب كے سب پيشاب سے بچنے اور اس كے چھينٹوں پڑنے كى حرمت پر دلالت كرتے ہيں.
ديكھيں: سبل السلام ( 1 / 119 – 120 ).
خلاصہ يہ ہوا كہ:
صحيح روايات كے الفاظ يہ ہيں:
" لا يستتر " اور " لا يستبرئ " اور " لا يتنزہ " يہ سب الفاظ ايك ہى معنى پر دلالت كرتے ہيں، جيسا كہ آئمہ كرام كى كلام بيان ہو چكى ہے، اور اس ميں اختلاف اصل كلمہ اور اس كے لغوى اشتقاق ميں ہے لہذا كلمہ " لا يستتر " استتار سے ہے، اور اس كا معنى يہ ہے كہ وہ اپنے اور اپنے پيشاب كے مابين آڑ نہيں كرتا تھا.
اور " لا يستبرئ " استبراء سے ہے جو كہ صفائى اور حفاظت كے معنى ہے.
اور " لا ينتزہ " كا لفظ تنزہ سے ہے اور اس كا معنى ابعاد اور دورى ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب