ميرى عمر سولہ برس ہے ميں نے اپنى تعليم ختم كر كے اپنى والدہ سے گھريلو كام كاج اور خاوند كے متعلقہ امور سيكھنا شروع كر ديے ہيں، يہ ميرے ارادہ سے ہى ہوا كسى نے مجھ پر جبر نہيں كيا.
ميرا ايك چچازاد ہے جس كى عمر بتيس برس ہے اور وہ شادى شدہ بھى ہے، اس كا اخلاق بھى اچھا ہے اور ديندار بھى ہے اور مالى حالت بھى اچھى ہے، ميں اس سے جنون كى حد تك محبت كرتى ہوں، اور كسى دوسرى كے ليے اس سے محبت كرنے كو مباح نہيں كرتى.
ميرے چچا كے بيٹے نے دوسرى شادى كرنا چاہى اور ميرا نصيب كہ اس نے سب لڑكيوں ميں مجھے ہى اختيار كيا، اور اس وقت ميرى محبت كے بارہ ميں جانا ميں نے سب كو كہہ ديا كہ ميں اس سے محبت كرتى ہوں اور اس كى دوسرى بيوى بننے پر موافق ہوں.
اور حقيقتا اس نے آ كر ميرے والد سے ميرا رشتہ طلب كيا ليكن ميرے والد نے انكار كر ديا، اور مجھے كہنےلگے: ميں آپ كى شادى كسى شادى شدہ مرد سے نہيں كرونگا، تم ابھى چھوٹى عمر كى ہو اور اپنى مصلحت كو نہيں پہچانتى، ميرے چچا كے بيٹے نے ابھى اس كو تسليم نہيں كيا اور ابھى تك وہ ميرے ساتھ شادى كرنے پر اصرار كر رہا ہے، ليكن پہلے كى طرح وہ ہمارے گھر نہيں آتا، تا كہ كوئى فضول بات نہ ہو اور مجھے اور باقى سب كو تنگى كا سامنا نہ كرنا پڑے، ليكن وہ عادت كے مطابق گھر ميں آتا اور ڈرائنگ روم ميں ميرے دادا اور چچاؤں كے ساتھ بيٹھتا ہے.
يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ ميں اسے روزانہ ديكھتى ہوں ليكن وہ مجھ سے بات نہيں كرتا، ميں دين پر عمل كرنے والى ہوں اور جانتى ہوں كہ ايك بالغ شخص اللہ كے سامنے اپنے اعمال كا جواب دينے والا ہے اور ہر چيز كا محاسبہ ہونا ہے، اور ميرے والد كو يہ حق نہيں كہ وہ اس چيز كو حرام كرے جسے اللہ نے حلال كيا ہے.
حديث ميں ہے: ” جب تمہارے پاس ايسا شخص آئے جس كے دين اور اخلاق كو تم پسند كرتے ہو تو تم اس كے ساتھ ( اپنى لڑكى كا ) نكاح كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں بہت زيادہ فتنہ و فساد بپا ہو گا ”
برائے مہربانى آپ اس كا جواب ديں اور كوئى نصيحت كريں كہ ميں اپنےوالد كى نافرمانى كيے بغير كيا كروں، اور ميرا چچا زاد بيٹا كيا كرے ؟
چچا كے بيٹے سے محبت كرتى ہے اور والد اس سے شادى كرنے سے اس ليے انكار كرتا ہے كہ وہ شادى شدہ ہے
سوال: 59965
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اللہ سبحانہ و تعالى نے جو احكام مشروع كيے ہيں ان ميں بہت حكمت پائى جاتى ہے، اور ان احكام ميں يہ بھى شامل ہے كہ شادى ميں ولى كى موافقت اور رضامندى نكاح صحيح ہونے كى شرط ہے، اور اس معاملہ كو اللہ نے عورت كے سپرد نہيں چھوڑا كہ ولى كے بغير وہ خود ہى اپنا نكاح كر لے.
آپ ديكھيں كے بعد عورتيں اس ميں كوئى حرج نہيں سمجھتى خاص كر جب وہ چھوٹى عمر كى ہوں، يا پھر احكام اور شريعت مطہرہ كى حكمتوں سے جاہل ہوں، ليكن بہت جلد سب كے سامنے واضح ہو جاتا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے جو مشروع كيا ہے اس ميں انتہائى حكمت سے پر ہے.
مثلا: جب يہ عورت بڑى ہو جاتى اور شادى كر ليتى ہے اور اس كى بيٹيوں ميں سے كوئى بيٹى شادى كى عمر كو پہنچ جائے تو كيا يہ راضى ہوتى ہے كہ اس كى بيٹى جسے چاہے والدين كى رضامندى كے بغير شادى كے ليے اختيار كر لے ؟
يقينا مومن اور عقلمند عورتيں يہ جانتى ہيں كہ اگر ايسى كام ہوتا تو اس كے باعث معاشرے ميں بہت زيادہ خرابياں پيدا ہو جاتيں، اور اللہ محفوظ ركھے كہ يہ چيز اللہ كى شرع ميں ہو.
اور جو كوئى بھى اپنے خيالات سے سوچتا ہے تو اس كى يہ سوچ ناقص عقل كے ساتھ ہے، اسى ليے ولى كى موافقت كو واجب اور ضرورى قرار ديا گيا ہے؛ كيونكہ وہ عورت سے زيادہ صحيح اور اچھا و بہتر تلاش كرنے كى صلاحيت و استطاعت ركھتا ہے.
كتنى ہى عورتيں ہيں جنہوں نے اپنے گھر والوں كى موافقت كے بغير شادى كى تو وہ اس پر نادم ہوئيں، اور كتنے ہى ايسے گھر تباہ ہوئے جو اس سلسلہ ميں اللہ كے حكم كو پامال كر كے بسائے گئے.
اور اس وقت شريعت اولياء كو يہ بھى اجازت نہيں ديتى كہ وہ اپنى بيٹيوں پر اپنا حكم زبردستى ٹھونسيں، اور اللہ سبحانہ و تعالى نے اولياء پر اپنى بيٹيوں كو شادى سے روكنا حرام كيا ہے ليكن يہ تحريم اس حال ميں ہے جب مناسب اور كفؤ اور دين اور اخلاق سے بھرپور پختہ رشتہ آئے اور لڑكى اس رشتہ پر راضى ہو تو اس سے شادى كرنے سے روكا جائے.
ليكن اگر ايسا رشتہ نہ آئے جو كفؤ اور مناسب ہو تو باپ كو اس رشتہ سے انكار كرنے كا حق حاصل ہے، اور وہ اس انكار پر اجروثواب كا حقدار ہوگا، چاہے عورت سارى زندگى ہى بغير شادى كے رہے.
اور والد كے ليے يہ بھى جائز نہيں كہ وہ اپنى بيٹى ايسے شخص سے شادى پر مجبور كرے جس سے وہ نكاح كرنا پسند نہيں كرتى اور اس ميں رغبت نہيں ركھتى، اور اگر باپ ايسا كرتا ہے تو وہ گنہگار ٹھرےگا، اور اگر جبر ثابت ہو جائے تو عورت كو نكاح فسخ كرنے كا مطالبہ كرنے كا حق ہے.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
اللہ آپ كى حفاظت فرمائے، آپ كو علم ہے كہ عورتيں دين اور عقل ميں ناقص ہيں، يہاں ايك مسئلہ پيش كيا جاتا ہے كہ جب عورت كسى غير صالح شخص كو اختيار كر لے اور اس كے والد نے جس شخص كو اختيار كيا ہو وہ نيك و صالح ہو تو كيا لڑكى كى رائے پر عمل كيا جائيگا يا كہ اسے اس شخص سے شادى كرنے پر مجبور كيا جائيگا جسے والد نے اختيار كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
” جس شخص سے والد اس كى شادى كرنا چاہتا ہے اس سے لڑكى كو شادى كرنے پر مجبور كرنا جائز نہيں اگرچہ وہ شخص نيك و صالح ہى كيوں نہ ہو؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” كنوارى لڑكى كا نكاح اس كى اجازت كے بغير نہيں كيا جائيگا، اور نہ ہى شادى شدہ عورت كا نكاح اس كے مشورہ كے بغير كيا جائيگا ”
اور مسلم شريف كے الفاظ ہيں:
” كنوارى لڑكى سے اس كا باپ اس كے متعلق اجازت لے گا”
رہا مسئلہ اس كى شادى ايسے شخص سے كرنى جس كا دين اور اخلاق پسند نہيں تو يہ بھى جائز نہيں، اس كے ولى كو چاہيے كہ وہ اس سے شادى نہ كرے اور اسے كہے كہ ميں اس شخص سے شادى نہيں كرونگا جس سے تم شادى كرنا چاہتى ہو اگر وہ نيك و صالح نہيں ہے.
اور اگر قائل يہ كہے كہ:
” اگر عورت اس شخص سے ہى شادى كرنے پر اصرار كرے تو ؟
اس كا جواب يہ ہے كہ: ہم اس شخص سے اس كى شادى نہيں كرينگے، اور اس كا ہم پر كوئى گناہ نہيں ہوگا.
جى ہاں اگر انسان كو خرابى كا خدشہ ہو وہ يہ كہ اس عورت اور اس شخص جس كا رشتہ آيا ہے كے درميان ايسا فتنہ اور خرابى ہو جائے جو عفت و عصمت كے منافى ہو.
اور يہاں اس شخص سے اس كى شادى كرنے ميں كوئى مانع نہيں، يہاں ہم اس كى شادى اس ليے كر رہے ہيں كہ فساد اور خرابى سے دور رہا جائے.
ديكھيں: مجموعۃ اسئلۃ تھم الاسرۃ المسلمۃ ( 42 ).
دوم:
والد كے ليے واجب اور ضرورى ہے كہ وہ اپنى بيٹى كے ليے اچھا اور صالح قسم كا خاوند اختيار كرے، اور اس كے ليے جائز ہے كہ شادى شدہ ہونے كى بنا پر اس رشتہ سے انكار كر دے، اگرچہ وہ شخص عدل و انصاف كرنے پر بھى قادر ہو؛ اس معاملہ ميں ايسى كوئى چيز نہيں جو ولى پر گناہ واجب كرتى ہو؛ كيونكہ ولى كے جائز ہے كہ وہ اپنى بيٹى كے نكاح ميں خاوند پر شرط ركھ سكتا ہے كہ وہ دوسرى شادى نہيں كريگا.
صحيح قول كے مطابق يہ شرط مباح ہے، اور خاص كر ايك سے زائد بيويوں والے بہت ہى ايسے ہيں جو عدل و انصاف اور محبت كرتے ہوں اور اولاد كى اچھى تربيت كريں.
سنن نسائى ميں ہے كہ ابو بكر اور عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا كا رشتہ مانگا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” وہ چھوٹى ہے ”
چنانچہ جب على رضى اللہ تعالى عنہ نے رشتہ طلب كيا تو آپ نے ان سے شادى كر دى ”
سنن نسائى حديث نمبر ( 3221 ).
اس سے يہ معلوم ہوا كہ اگر ولى ديكھے كہ رشتہ اس كى بيٹى كے مناسب نہيں اور وہ دين اور اخلاق والا بھى ہو، يا پھر وہ اس كى بيٹى اور اپنى بيويوں كے مابين عدل نہ كر سكتا ہو، ممنوع يہ ہے كہ اخلاق اور دين والے كو رد كر كے فاسق و فاجر كو قبول كيا جائے.
اور آپ كو حق نہيں كہ آپ اللہ كى شريعت كى مخالفت كرتى پھريں اور ولى كے بغير شادى كر ليں، اگر ايسا نكاح ہو جائے تو يہ نكاح باطل ہوگا، اور اسى طرح آپ كے ليے يہ بھى جائز نہيں كہ آپ اپنے چچا كے بيٹے سے بات چيت كريں اور اس سے خط و كتاب كرتى پھريں، يا كسى دوسرے اجنبى مردوں سے اور نہ ہى آپ كے ليے اسے ديكھنا جائز ہے؛ كيونكہ وہ آپ كے ليے اجنبى اور غير محرم ہے، اور يہ بھى جائز نہيں كہ آپ لوگوں كو بتائيں كہ اس يا كسى اور شخص سے محبت كرتى ہيں.
يہ چيز عورت كو عيب دار بناتى ہے، اور اس كے ليے ايسا كرنا حرام ہے، اس ليے آپ اسے چھپا كر ركھيں حتى كہ اللہ تعالى آپ كى اپنے چچا كے بيٹے سے شادى ميں آسانى پيدا كرے، يا پھر آپ كو اس كا نعم البدل عطا فرمائے.
ہميں بہت تعجب ہوا كہ آپ نے اپنے سوال كے آخر ميں بتايا ہے كہ آپ ” دين كا التزام كرتى ہيں” اور آپ نے سوال كى ابتدا ميں كہا ہے كہ اس شخص سے آپ جنون كى حد تك محبت كرتى ہيں!
دين كا التزام كرنے والى عورت اور دين پر چلنے والے مرد كا يہ حال نہيں ہوتا، ہو سكتا ہے كوئى مرد كسى عورت يا كوئى عورت كسى مرد سے محبت كرے، ليكن يہ محبت اس درجہ تك اس ميں ہى پائى جاتى ہے جس كا ايمان ناقص ہو، اور وہ عقلى طور پر بےوقوف ہو؛ اور اسے اس درجہ تك نہيں جانا چاہيے كہ وہ اس كو پسند كرنے لگے اور اس سے نكاح كى رغبت ركھے.
اگر تو حاصل ہو تو بہتر, وگرنہ دونوں كے ليے ہى جائز نہيں كہ وہ اس معاملہ مشغول ہو جائيں حتى كہ ان كى عقل پر ہى پردہ پڑ جائے، اور ان كى صحيح سوچ ختم ہو كر رہ جائے، جنونى محبت كے قصے بہت ہى المناك ہيں جو ايسا كرنے والے كو پاگل كر ديتے ہيں، يا پھر فحاشى ميں ڈال ديتے ہيں، يا معشوق كے دين ميں داخل ہونے كے ليے اپنا دين تك چھوڑ ديتے ہيں، اور ہم آپ كو اس سب سے دور كرتے ہيں.
اس ليے آپ صبر كريں حتى كہ اللہ سبحانہ و تعالى آسانى پيدا فرمائے، اور آپ اپنے گھر والوں كى بات كو سنيں اور اس پر عمل كريں، اور ان كى مخالفت مت كريں، اور آپ كو كثرت سے ايسے اعمال كرنا چاہيں جن سےايمان قوى اور زيادہ ہوتا ہے اور تقو حاصل ہو.
اور اپنے دل كو اللہ اور اس كے دين اور اطاعت و فرمانبردارى كى محبت سے معمور كريں، اور اللہ تعالى سے اپنے ليے نيك و صالح خاوند كاسوال كريں، اور يہ ياد ركھيں ـ ان شاء اللہ ـ كہ آپ كى بھى بيٹياں ہونگى لہذا اپنے ليے اس پر راضى مت ہوں جو آپ اپنى بيٹيوں كے ليے پسند نہ كرتى ہوں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب