0 / 0

ڈيوٹى پر جانے ميں مشكل اور نہ جانے والے ايام كى حاضرى لگانا

سوال: 60134

ميں نے جلد ريٹائرمنٹ حاصل كرنے كا عزم كيا تا كہ ميں اس شہر منتقل ہو جاوں جہاں ميرے بيوى بچے اور سسرال رہائش پذير ہيں، كيونكہ ميرى ساس بہت زيادہ بيمار ہے اور بيٹى كا قريب ہونا ضرورى ہے.

اور بالفعل ميں نے اس شہر ميں ايك فليٹ كرايہ پر لے كر اپنا سامان بھى وہاں منتقل كر ديا اور ملازمت سے رٹائرمنٹ كى درخواست دے ڈالى، ليكن مينجر نے مجھے نصيحت كى كہ كچھ دير انتظار كر لو كيونكہ ميں جس شہر منتقل ہونا چاہتا ہوں وہاں برانچ كھولى جا رہى ہے، يا پھر رٹائرہونے والوں كے ليے الاونس دينے كا سوچا جا رہا ہے.

تو اس طرح ميں نے يہ عرصہ ( دو ماہ ) ڈيوٹى پر حاضرى بہت كم دى، اور جن ايام ميں غائب رہا ان كى بھى حاضرى لگائى، سوال يہ ہے كہ:

كيا ڈيوٹى پر ميرى حالت اور ميرا ڈيوٹى پر نہ جانا صحيح ہے يا نہيں ؟

اور اگر صحيح نہيں تو جن سابقہ ايام كى ميں نے بغير ڈيوٹى كيے حاضرى لگائى ہے اس كا حكم كيا ہو گا، كيا ميں وہ دو ماہ كى تنخواہ واپس كر دوں تا كہ وہ دفترى ضرويات اور كمپيوٹر وغيرہ خريد ليں كيونكہ آفس كو ان اشياء كى ضرورت ہے، يا كہ تنخواہ صدقہ كر دوں، يا كيا حكم ہے ؟

اور كيا ميں ہفتہ ميں دو دن حاضر ہو كر باقى ايام كى حاضرى لگا ديا كروں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ آپ كو ساس اور اپنے اہل و عيال اور رشتہ داروں كے ساتھ حسن سلوك كرنے كى رغبت ركھنے پر جزائے خير عطا فرمائے، اور اس سلسلہ ميں جو آپ سفر اور ايك شہر سے دوسرے شہر منتقل ہونے اور ملازمت چھوڑنے نے اور سفر كى تكليف اور مشقت برداشت كى ہے اس پر آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

دوم:

ڈيوٹى پر حاضر نہ ہونے والے ايام كى حاضرى لگا كر آپ حرام كام كے مرتكب ہوئے ہيں، اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں، كيونكہ اس ميں جھوٹ اور لوگوں كا مال دھوكہ اور باطل طريقہ سے كھانا ہے، اور اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو! تم آپس ميں ايك دوسرے كا مال باطل طريقہ سے نہ كھاؤ النساء ( 29 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” يقينا سچائى نيكى و بھلائى كى طرف لے جاتى ہے، اور بلا شبہ سچائى جنت كى راہ كى راہنمائى كرتى اور جنت ميں داخل كرتى ہے، اور بلا شبہ ايك شخص سچ بولتا رہتا ہے تو وہ صديق بن جاتا ہے، اور يقينا جھوٹ فسق و فجور كى طرف راہنمائى كرتا ہے، اور بلا شبہ فسق و فجور آگ كى طرف لے جاتا ہے، اور بلا شبہ ايك شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے حتى كہ اللہ تعالى كے ہاں اسے جھوٹا اور كذاب لكھ ديا جاتا ہے ”

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5629 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 4719 ).

سوم:

ان ايام كى آپ نے جو تنخواہ لى ہے وہ دفتر والوں كو واپس كرنى واجب اور ضرورى ہے، اور اس سے فائدہ حاصل كرنا آپ كے ليے جائز نہيں كيونكہ يہ حرام مال ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” جو جسم بھى حرام پر پلا ہو اس كے ليے آگ زيادہ بہتر ہے ”

اسے طبرانى نے ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 4519 ) ميں اسے صحيح قرا رديا ہے.

اور امام ترمذى رحمہ اللہ نے كعب بن عجرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے ان الفاظ ميں حديث روايت كي ہے:

” جس گوشت نے بھى حرام پر پرورش پائى ہو اس كے ليے آگ زيادہ بہتر ہے ”

سنن ترمذى حديث نمبر ( 614 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

آپ كے ليے اس تنخواہ اور مال كو صدقہ كرنے كا حق حاصل نہيں كيونكہ صدقہ تو وہ مال كيا جاتا ہے جس كے مالك كا علم نہ ہو، يا پھر اس كے مالك تك پہنچنا مشكل ہو.

چہارم:

آپ كے ليے ڈيوٹى سے غائب رہ كے ان ايام كى حاضرى لگانے كا عمل جارى ركھنا صحيح نہيں، بلكہ آپ كوئى ايسا طريقہ تلاش كريں جس ميں آپ پر كوئى گناہ نہ ہو، يا پھر آپ ابھى سے ہى بغير پنشن وغيرہ حاصل كيے جلد رٹائرمنٹ پر راضى ہو جائيں، اور آپ كو يہ معلوم ہونا چاہيے كہ اللہ كے پاس جو كچھ ہے آپ اسے اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى كيے بغير حاصل نہيں كر سكتے، اور حرام تو بركت كو ختم كر ديتا ہے، اور حرام مال دنيا و آخرت ميں اس كے ليے وبال جان ہے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى نے اپنى ڈيوٹى پر حاضر ہونے ميں سستى كرنے والے، اور حاضرى لگانے ميں سچائى اختيار نہ كرنے والے شخص كو نصحيت كرتے ہوئے يہ نصيحت فرمائى كہ:

” ہر مسلمان شخص پر امانت كى ادائيگى واجب ہے، اور ڈيوٹى اور ملازمت ميں خيانت كرنے سے بچنا چاہيے، اور كام پر حاضر ہونے اور چھٹى كے وقت حاضرى لگانے ميں بھى خيانت مت كرے، ملازم پر واجب ہے كہ وہى وقت لكھے جس پر آيا اور واپس گيا ہے، تا كہ وہ اپنے آپ كو اس سے برى الذمہ كر سكے، اور ان ملازمين كے ذمہ دار شخص كو بھى چاہيے كہ وہ انہيں نصيحت كرے، اور ان كو خير بھلائى كى طرف راہنمائى كرتا رہے اور انہيں خيانت كرنے سے ڈراتا رہے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے ” انتہى

ماخوذ از: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 19 / 356 ).

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ كو سيدھے راہ كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android