بعض ممالك ميں ہم ديكھتے ہيں كہ بعض لوگ جب قضائے حاجت كرنا چاہيں تو وہ قبرستان ميں داخل ہوكر يا ديوار پھلانگ كر قضائے حاجت كرتے ہيں، يہ علم ميں رہے كہ اس ميں مسلمانوں كى قبريں ہيں، تو اس عمل كا كيا حكم ہے ؟
قبرستان ميں قضائے حاجت كا حكم
سوال: 6050
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اس ميں كوئى شك نہيں يہ بہت برا اور قبيح عمل اور مردوں كى حرمت پر زيادتى ہے، اور ميت كے ليے قبر اسى طرح ہے جس طرح زندہ كے ليے گھر ہوتا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس فعل كى قباحت اور برائى بيان كرتے ہوئے فرمايا:
" مجھے ايك انگارے يا تلوار پر چلنا، يا اپنا جوتا ٹانگوں كے ساتھ باندھنا مسلمان كى قبر پر چلنے سے زيادہ پسند ہے، اور مجھے كوئى پرواہ نہيں كہ ميں كسى قبرستان ميں قضائے حاجت كروں يا كسى بازار كے درميان"
اسے ابن ماجۃ نے روايت كيا ہے، اور الزوائد ميں كہا ہے كہ اس كى سند صحيح ہے، اور ارواء الغليل ( 63 ) ميں بھى اسے صحيح قرار ديا گيا ہے.
قولہ: " يا ميں اپنا جوتا اپنى ٹانگوں سے باندھ لوں "
يہ كام بہت زيادہ مشكل كاموں ميں سے ہے، اور اگر ممكن بھى ہو تو اس ميں بہت تھكاوٹ ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كہہ رہے ہيں كہ يہ كسى مسلمان شخص كى قبر پر چلنے سے مجھے يہ زيادہ پسند ہے.
قولہ: " مجھے كوئى پرواہ نہيں كہ ميں قبرستان ميں قضائے حاجت كروں يا پھر كسى بازار كے وسط ميں"
اس سے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى مراد يہ ہے كہ قباحت ميں يہ دونوں برابر ہيں، تو جو كوئى بھى ان دونوں جگہوں ميں سے كسى ايك جگہ قضائے حاجت كرے تو اسے كوئى پرواہ نہيں كہ كسى ميں آئے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد