اگر كوئى شخص بہت مالدار ہو تو اس كے ليے كتنا مال ركھنا واجب ہے؟
اوركيا ان كے ليے بڑا گھر خريدنا جائز ہے؟ يا كہ ان پر واجب ہوتا ہے كہ وہ فقراء كو زيادہ سے زيادہ مال ديں ؟
مالدار لوگوں پر زكاۃ كے علاوہ اور كيا واجب ہوتا ہے
سوال: 6266
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مالدار اور غنى لوگوں كے اموال ميں زكاۃ واجب ہوتى، اور زكاۃ كے بعد جو باقى بچے چاہے وہ بہت زيادہ مال ہو وہ اس كے ليے حلال ہے، اور اس كے ليے بڑا گھر بھى خريدنا جائز ہے، ليكن اسے اسراف اور فضول خرچى كرنے سے اجتناب كرنا ہو گا، كيونكہ فضول خرچى شرعا حرام ہے.
اس كى دليل فرمان بارى تعالى ہے:
اور تم اسراف و فضول خرچى نہ كرو، كيونكہ اللہ تعالى اسراف و فضول خرچى كرنے والوں سے محبت نہيں كرتا .
چاہے اسراف كرنے والا غنى اور مالدار ہى كيوں نہ ہو.
اور اس كے ليے مستحب اور جائز ہے كہ وہ فقراء و مساكين كو زكاۃ كے علاوہ بھى كچھ نہ كچھ دے، اور سب سے افضل صدقہ و خيرات وہ ہے جو غنا سے ہو، اور اس پر شرعا لازم ہے كہ وہ مہمان كى مہمان نوازى اور عزت كرے، اور پريشان حال لوگوں كى مدد كرے، اور سوال كرنے والے فقير كو تو يقينى دينا چاہيے، چاہے انسان زكاۃ ادا بھى كر چكا ہو.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد