ان عورتوں كا گناہ كيا ہے جنہيں ان كے اولياء نے عورتوں كى موافقت كے بغير شادى پر مجبور كر ديا اور اب انہيں طلاق ہو چكى ہے ؟
ميں ايك ايسى عورت كو جانتا ہوں اور اس سے شريعت كے مطابق شادى بھى كرنا چاہتا ہوں، ليكن اسے سلبى افكار اور سوچوں كا مقابلہ كرنا ہوگا، مثلا يہ كہ وہ اب نصف عورت اور دوسرے درجہ كى عورت بن چكى ہے كيوكہ وہ مطلقہ ہے.
اس كے خاندان والے اس كے ساتھ ايسے معاملات كرتے ہيں جيسے كوئى غلام اور لونڈى ہو، اس حادثہ كے بعد وہ عورت كسى بھى مرد پر بھروسہ نہيں كر سكتى، اس ميں غلطى بھى اس كے والدين كى تھى كيونكہ وہ اس شخص سے بالكل شادى نہيں كرنا چاہتى تھى، ميں اس عورت كى مدد كرنا چاہتا ہوں، اور جب اللہ تعالى نے مجھے اس كى مدد كرنے كى قدرت و استطاعت دى تو ميں اس سے شادى بھى كرنا چاہتا ہوں.
مجھے معلوم نہيں ہو رہا كہ ميں كيا كروں كيونكہ وہ انكار كرتى ہے، ميں چاہتا ہوں كہ اس كى مدد كرنے ميں آپ ميرا تعاون كريں تا كہ وہ اس قسم كے سلبى اور منفى افكار و سوچ سے چھٹكارا حاصل كر سكے، ميں نے اسے بتايا ہے كہ ماضى ميں جو كچھ ہوا ميرے ليے وہ كسى مشكل كا باعث نہيں بنے گا، ليكن وہ يہ خيال كرتى ہے كہ ميرے والدين اس كے ماضى پر اعتراض كر سكتے ہيں.
برائے مہربانى يہ بتائيں كہ كيا ميرے والدين كو اس مطلقہ عورت سے شادى كرنے سے روكنے كا حق حاصل ہے، حالانكہ اب وہ پاك صاف اور مستقيم و عفت و عصمت كى مالك ہے، مجھے علم ہے كہ ميں جس سے بھى شادى كروں والدين كى موافقت ضرورى ہے، ليكن قرآن مجيد ہميں اس حالت كے بارہ ميں كچھ نہيں بتاتا.
آپ مجھے يہ بتائيں كہ ميں اس كا تعاون كيسے كر سكتا ہوں، وہ جن مشكلات سے دوچار ہے ان سے چھٹكارا حاصل كرنے كے ليے ميں اس كى ہر طرح سے مدد كرنے پر تيار ہوں ؟
طلاق كى وجہ سے بيٹھى ہوئى عورت كى مدد كرنا چاہتا ہے
سوال: 6532
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ آپ كسى ايسى عورت سے شادى كريں جو آپ كے والدين كو راضى كرے، اور اگر آپ اس عورت كى مدد كرنا اوراس سے شادى كرنا چاہتے ہيں تو آپ اپنے والدين كو مطمئن كرنے كى كوشش كريں، ان شاء اللہ آپ كو اجروثواب حاصل ہوگا.
اور اگر وہ مطئمن نہ ہوں تو پھر آپ اس عورت كے ليے كسى اور مسلمان شخص كو تلاش كريں جو اس سے شادى كرے اور اس كى ستر پوشى كر سكے.
رہا مسئلہ مطلقہ عورت كا تو اگر يہ عورت دين والى اور اخلاق كى مالك ہے تو يہ پہلے درجہ كى خاتون ہے، اور طلاق اس كے مرتبہ و مقام پر كوئى اثرانداز نہيں ہوگى، اور نہ ہى اللہ كے ہاں اس كى قدر و منزلت ميں كمى كريگى.
اسے چاہيے كہ وہ استقامت اختيار كرے اور اس طرح كے بےہودہ خيالات سے متاثر نہ ہو، ہم آپ كى نظر اس طرف متوجہ كرنا چاہتے ہيں كہ كسى بھى اجنبى عورت كے ساتھ تعلقات ركھنے اور اس سے آپ كا رابطہ كرنا صحيح نہيں تا كہ كہيں يہ آپ يا اس عورت كے ليے فتنہ كا باعث نہ بن جائے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ اور اسے توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد