اگر كوئى شخص وتر ادا كرنے كى نيت كرے ليكن وہ سو گيا يا پھر اسے وقت كا پتہ ہى چلا اور وہ سحرى كھاتا رہا تو اس كا حكم كيا ہے، كيا وہ اذان فجر كے بعد وتر ادا كر لے ؟
فجر كى اذان كے بعد وتر ادا كرنا
سوال: 65692
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
طلوع فجر كے ساتھ وتر كا وقت ختم ہو جاتا ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" رات كى نماز دو دو ہے، جب وہ صبح ہونے كا خدشہ محسوس كرے تو ايك ركعت ادا كر لے تو يہ اس كى ادا كردہ نماز كو وتر بنا دے گى"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 472 ).
اور مسلم رحمہ اللہ نے ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" صبح ہونے سے قبل وتر ادا كرلو"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 754 ).
" جب فجر كى اذان ہو جائے اور انسان نے وتر ادا نہ كيے ہوں تو وہ انہيں چاشت كے وقت تك مؤخر كر دے حتى كہ سورج اونچا ہو جائے تو پھر جتنى اس كى ليے ميسر ہو وہ نماز ادا كرے، دو يا چار يا اس سے زيادہ دو دو كر كے ادا كرے، اگر اس كى عادت تين وتر ادا كرنے كى ہو اور وہ رات وتر ادا نہيں كر سكا تو چاشت كے وقت دو دو كر كے چار ركعت پڑھے، اور اگر وہ عادتا پانچ وتر ادا كرتا ہو اور رات كى بيمارى يا نيند وغيرہ كى بنا پر ادا نہيں كر سكا تو وہ تين سلام كے ساتھ دو دو ركعت كر كے چھ ركعات ادا كرے.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايسا كرتے تھے، آپ گيارہ ركعت ادا كرتے اور جب بيمارى يا نيند كى بنا پر مشغول رہتے تو دن كے وقت بارہ ركعت ادا كرتے تھے، بخارى اور مسلم كى روايت ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا يہى بيان ہے، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا ميں امت كے ليے بھى يہى مشروع ہے.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 11 / 300 ).
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے يہ بھى سوال كيا گيا:
كيا فجر كى اذان كى ابتدا كے وقت وتر كا وقت ختم ہوتا ہے يا كہ اذان ختم ہونے كے وقت، اور اگر كوئى شخص سو جائے اور وتر ادا نہ كر سكے تو كيا اس كى قضاء ہے اور كيسے ہو گى؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" ہر مومن مرد و عورت كے ليے روزانہ رات كو وتر ادا كرنا مشروع ہے اور اس كا وقت نماز عشاء سے ليكر طلوع فجر تك ہے، اس كى دليل صحيحين ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ہے: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" رات كى نماز دو دو ركعت ہے، جب صبح ہونے كا خدشہ محسوس كرو تو ايك ركعت ادا كر لو تو اس طرح ادا كردہ نماز وتر ہو جائے گى "
اور صحيح مسلم ميں ہے كہ ابو سعيد خدرى ررضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" صبح ہونے سے قبل وتر ادا كر لو"
اور امام احمد اور ابو داود اور ترمذى نے خارجۃ بن حذافہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا اور حاكم رحمہ اللہ نے اسے صحيح كہا ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى نے تمہيں ايسى نماز كے ساتھ مدد دى ہے جو تمہارے ليے سرخ اونٹوں سے بھى بہتر ہے، ہم نے كہا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم وہ كونسى ؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وتر، نماز عشاء سے ليكر طلوع فجر كے درميان"
اس موضوع كى احاديث بہت زيادہ ہيں، جو كہ اس پر دلالت كرتى ہيں كہ طلوع فجر سے وتر كا وقت ختم ہوتا ہے، اور اگر نمازى كا طلوع فجر كا علم نہ ہو تو پھر وہ ايسے مؤذن پر اعتماد كرے جو وقت كا خيال ركھتا ہو، اورجب مؤذن فجر كى اذان دے تو وتر كا وقت جاتا رہا، ليكن جو فجر سے قبل اذان ديتا ہو تو اس كى اذان سے وتر فوت نہيں ہو گا، اور نہ ہى روزہ ركھنے والے كے ليے كھانا پينا، اور نہ ہى اس سے فجر كى نماز كا وقت داخل ہو گا، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" بلال رضى اللہ تعالى عنہ رات كو اذان ديتے ہيں تو تم ابن ام مكتوم رضى اللہ تعالى عنہ كے اذان دينے تك كھاؤ پيئو" متفق عليہ.
ابن ام مكتوم رضى اللہ تعالى عنہ نابينا تھے اور وہ اس وقت تك اذان نہيں ديتے تھے جب تك كہ انہيں يہ نہ كہا جاتا كہ آپ نے تو صبح كر دى صبح كردى، جو كچھ ہم نے بيان كيا ہے اس سے يہ واضح ہوا كہ اگر مؤذن اذان دينے ميں وقت كا خيال كرتا تو ہو اذان شروع ہوتے ہى وتر كا وقت ختم ہو جاتا ہے، ليكن اگر مؤذن اذان شروع كردے اور شخص آخرى ركعت ميں ہو تو وہ صرف اذان سننے سے ہى عدم طلوع فجر كا يقين ركھتے ہوئے ركعت مكمل كر لے، اور اس ميں ان شاء اللہ كوئى حرج نہيں.
اور جس شخص كا وتر رہ جائے اس كے ليے رات كى عادت كے مطابق دن كو نماز ادا كرنا مشروع ہے ليكن وہ وتر كى بجائے جفت ركعات ادا كرے گا، يعنى اگر تين پڑھتا تھا تو دن ميں چار اور اگر اس كى عادت پانچ ركعت تھى تو دن ميں چھ ركعت ادا كرے گا، اور ہر دو ركعت كے بعد سلام پھيرے گا كيونكہ صحيح مسلم ميں ہے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" كسى مرض يا نيند كى بنا پر جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا وتر رہ جاتا تو دن كو بارہ ركعت ادا كرتے تھے" اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى غالبا عادت گيارہ ركعات ادا كرنے كى تھى، جب وہ مرض يا نيند كى بنا پر نہ ادا كر سكتے تو بارہ ركعت ادا كرتے جيسا كہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كر رہى ہيں، ہر دو ركعت ميں سلام پھيرتے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے ثابت ہے كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم رات كو دس ركعات ادا كرتے ہر دو ركعت ميں سلام پھيرتے اور ايك ركعت كے ساتھ وتر بناتے" متفق عليہ.
اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: " رات اور دن كى نماز دو دو ركعت ہے" اسے مسند احمد اور اہل سند نے صحيح سند كے ساتھ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے، اور اس كى اصل صحيحين ميں ان الفاظ كے ساتھ ہے:
" رات كى نماز دو دو ہے" جيسا كہ اس جواب كے شروع ميں گزر چكا ہے، اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے. انتھى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 11 / 305 – 308 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:
ميں طلوع فجر سے قبل افضل وقت ميں وتر ادا كرنے كى كوشش كرتا ہوں؛ ليكن بعض اوقات طلوع فجر سے قبل ادا نہيں كر سكتا، تو كيا طلوع فجر كے بعد ميرے ليے وتر ادا كرنا جائز ہے؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
فجر طلوع ہو جائے اور آپ نے وتر نہ كيا ہو تو آپ وتر نہ پڑھيں، ليكن دن ميں ادا كريں، اگر تين ركعت ادا كرتے تھے تو چار اور اگر پانچ تو پھر چھ ركعت ادا كريں.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے جب رات كى نماز رہ جاتى تو وہ دن ميں بارہ ركعات ادا كرتے تھے" انتھى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 14 / 114 ).
اور صحابہ كرام كى ايك جماعت سے وارد ہے كہ اذان فجر كے بعد اقامت تك وتر كى ادائيگى ميں كوئى حرج نہيں، ان ميں ابن مسعود شامل ہيں.
اسے نسائى ( 1667 ) نے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح نسائى ميں صحيح قرار ديا ہے, اور ابن عباس بھى شامل ہيں، اسے امام مالك نے الموطا ( 255 ) اور عبادہ بن صامت بھى شامل ہيں، ديكھيں: الموطاء ( 257 ) رضى اللہ عنہم جميعا.
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى سے نيند كى بنا پر وتر ادا نہ كر سكنے والے كے بارہ ميں دريافت كيا گيا؟
تو ان كا جواب تھا:
" وہ طلوع فجر اور اقامت كے درميان ادا كر لے، جيسا كہ عبد اللہ بن عمر اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہم وغيرہ نے كيا تھا، اور ابو داود نے سنن ميں ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو شخص نماز سے سو گيا يا بھول گيا تو اسے جب ياد آئے وہ ادا كر لے، كيونكہ يہ اس كا وقت ہے"
اور يہ فرض اور قيام الليل اور وتر اور سنت مؤكدہ سب كے عام ہے" انتہى
ديكھيں: فتاوى الكبرى ( 2 / 240 ).
لہذا جب مسلمان شخص ان دو ميں سے كسى امر پر بھى عمل كر لے تو ان شاء اللہ تعالى اس پر كوئى حرج نہيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب