ميرے خاندان ميں ايك شخص پيشاب كى بيمارى ميں مبتلا ہے، كيا اس كے نماز باجماعت ادا كرنا واجب ہے، يا كہ وہ اكيلا نماز ادا كرے ؟
كيا پيشاب كى بيمارى ميں مبتلا شخص نماز باجماعت ادا كر سكتا ہے ؟
سوال: 66074
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
پيشاب كى بيمارى ميں مبتلا شخص كى دو حالتيں ہيں:
پہلى حالت:
پيشاب مستقل اور مسلسل جارى رہے اس طرح كہ نماز اور وضوء كے وقت بھى نہ ركتا ہو، ايسے شخص كے ليے حكم يہ ہے كہ وضوء كرے اور انڈروير وغيرہ پہن لے تا كہ پيشاب سارے لباس ميں نہ پھيلے، نماز كا وقت شروع ہونے كے بعد وضوء كرے اور پھر سب لوگوں كى طرح باجماعت نماز ادا كرے.
ليكن اگر مسجد ميں گندگى پھيلنے كا خدشہ ہو تو اس كے ليے مسجد ميں داخل ہونا حلال نہيں، بلكہ اگر ميسر ہو تو وہ گھر ميں نماز باجماعت ادا كرے يا پھر اكيلا ہى ادا كر لے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى ” المغنى ” ميں كہتے ہيں:
” مستحاضہ عورت اور پيشاب كى بيمارى والا شخص مسجد ميں ٹھر اور وہاں سے گزر سكتا ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ مسجد ميں گندگى پھيلنے كا خدشہ نہ ہو؛ كيونكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ايك زوجہ متحرمہ نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ اعتكاف كيا اور وہ استحاضہ كى حالت ميں تھى، اور سرخى اور زردى ديكھتى، اور بعض اوقات وہ نماز ادا كر رہى ہوتى تو ان كے نيچے برتن ركھا ہوتا تھا ”
اسے بخارى نے روايت كيا ہے.
چنانچہ اگر مسجد گندى ہونے كا خدشہ ہو تو اسے مسجد ميں سے گزرنے كا حق نہيں؛ كيونكہ مسجد اس سے صاف رہنى چاہيے جس طرح پيشاب سے اسے صاف ركھا جاتا ہے، اور اگر حائضہ عورت كا مسجد سے گزرنے كى بنا پر مسجد گندى ہونے كا خدشہ ہو تو اسے مسجد سے گزرے كا حق نہيں ” انتہى باختصار.
ديكھيں: المغنى لابن قدامہ ( 1 / 201 ).
امام نووى رحمہ اللہ تعالى ” المجموع ” ميں لكھتے ہيں:
” مسجد ميں نجاست لے جانى منع ہے، جس كے بدن ميں نجاست لگى ہو يا اسے زخم ہو جس سے مسجد ميں گندگى پيھلنے كا خدشہ ہو تو اس شخص كے ليے مسجد ميں داخل ہونا حرام ہے، ليكن اگر گندگى پھيلنے كا خدشہ نہ ہو تو پھر حرام نہيں، ان مسائل كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” يہ مساجد ميں پيشاب اور گندگى وغيرہ كے ليے نہيں، بلكہ يہ مساجد اللہ تعالى كا ذكر اور قرآن مجيد كى تلاوت كے ليے ہيں ”
او كما قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم.
اسے مسلم نے روايت كيا ہے. انتہى
ديكھيں: المجموع للنووى ( 2 / 177 ).
دوسرى حالت:
اس كا پيشاب وضوء اور نماز كے وقت تك ركتا ہو، مثلا جس كے متعلق علم ہو كہ قضاء حاجت كے بعد پيشاب كچھ دير كے ليے رك جاتا ہے، تو ايسے شخص كے ليے پيشاب ركنے كے وقت تك نماز مؤخر كرنى لازم ہے، چاہے ايسا كرنے سے نماز باجماعت ادا نہ ہو سكے.
اس وقت اسے چاہيے كہ وہ اگر ميسر ہو سكے تو اپنے گھر والوں كے ساتھ نماز ادا كرے تا كہ نماز باجماعت كا ثواب حاصل ہو سكے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج سوال كيا گيا:
ايك شخص پيشاب كى بيمارى ميں مبتلا ہے، اور پيشاب كے بعد كچھ دير كے ليے پاك صاف رہتا ہے، اگر وہ پيشاب ركنے كا انتظار كرے تو جماعت ختم ہو جاتى ہے، اس كا حكم كيا ہے؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
” اگر معلوم ہو كہ پيشاب رك جاتا ہے تو اس كے ليے پيشاب آنے كى صورت ميں جماعت كى فضيلت حاصل كرنے كے ليے نماز ادا كرنى جائز نہيں بلكہ اسے پيشاب ركنے كا انتظار كرنا ہو گا اور اس كے بعد وہ استنجا كر كے وضوء كرے اور نماز ادا كرلے چاہے جماعت ختم ہو چكى ہو.
اسے وقت داخل ہونے كے بعد استنجاء اور وضوء جلد كرنا چاہيے، تا كہ وہ نماز باجماعت ادا كر سكے ” انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 408 ).
مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر (50075 ) اور (39494 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات