ميں جوانى كى عمر ميں ہوں اور كسٹم كليرنس كا كام كرتا ہوں، يعنى كسٹم ادا كرنے كے معاملہ كى پيروى اور سامان نكلوا كر تاجروں كے سٹوروں تك پہنچانے كا كام كر كے اجرت حاصل كرتا ہوں، كچھ مدت سے مجھے ايك شخص نے يہ پيشكش كى كہ ميں چار لاكھ ٹن سيمنٹ كى اپنے ساتھ لين دين كرنے والے تجار كے ساتھ ماركيٹنگ كروں، تو اس ميں سے مجھے كميشن ملے گى، سوال يہ ہے كہ:
كيا يہ نسبت حلال ہے يا حرام ؟
كسٹم كليئر كرنے كا كام اور دلالى كى اجرت
سوال: 66146
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اجرت لے كر كسٹم كليئر كروانے كا كام كرنا جائز ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ سامان ايسا ہو جس كى تجارت مباح اور جائز ہے.
دوم:
آپ نے جو سيمنٹ كى ماركيٹنگ كا ذكر كيا ہے، اگر تو اس كام كى اجازت ہے تو پھر مقرر كردہ اجرت لے كر ماركيٹنگ كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
اور آپ كا يہ عمل دلالى يعنى خريدار اور بائع كے مابين واسطہ اور رابطہ كروانے والا ہونے سے خالى نہيں، اور سوال نمبر ( 45726 ) كے جواب ميں دلالى كے جواز كا بيان اور اس بارہ ميں علماء كرام كے اقوال ذكر كيے جا چكے ہيں لہذا اس كا مطالعہ كرليں.
اور اگر آپ مالك سے سيمنٹ لے كر خود خريدار كو فروخت كريں، تو اس صورت ميں آپ بائع كے وكيل ہونگے، اور وكيل كے ليے بھى اپنے كام كے بدلے ميں اجرت لينے ميں كوئى حرج نہيں ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى اپنى مايہ ناز كتاب " المغنى" ميں كہتے ہيں:
كسى كو اجرت اور بغير اجرت كے وكيل بنانا جائز ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انيس رضى اللہ تعالى عنہ كو حد لگانے ميں اور عروہ رضى اللہ تعالى عنہ كو بغير اجرت كے بكرى خريدنے كا وكيل بنايا تھا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم زكاۃ اكھٹى كرنے كے ليے اپنے عاملوں كو بھيجا كرتے تھے اور انہيں اس كى اجرت ديا كرتے تھے.
اور اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے چچا كے دونوں بيٹوں نے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كو كہا تھا:
اگر آپ ہميں اس زكاۃ پر بھيجيں تو ہم آپ كو وہ كچھ ديں جو آپ كو لوگ ديتے ہيں، اور جو لوگوں كو ملتا ہے ہميں بھى ملے گا. ان دونوں كى مراد كيمشن تھى.
صحيح مسلم شريف حديث نمبر ( 1072 ).
اور اگر خريد و فروخت ميں كسى كو وكيل بنايا جائے تو اس كام كى بنا پر وہ اجرت كا مستحق ہے. انتھى اختصار كے ساتھ.
ديكھيں: المغنى لابن قدامۃ المقدسى ( 7 / 204 ).
دلالى يا پھر وكالت كى اجرت ميں معلوم نسبت لينے ميں كوئىحرج نہيں ہے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
خريدار اور بائع پر دلالت – كوشش – يعنى دلالى ميں كوئى حرج نہيں ( دلالت يا كوشش يہ دلالى كى اجرت ہے ) دلالت كى شرط ميں كوئى حرج نہيں. انتھى
ديكھيں: فتاوى ابن باز ( 19 / 31 ).
مستقل فتوى كميٹى كا كہنا ہے:
دلال كى دلالى كى مقدار ميں بہت زيادہ جھگڑا ہونے لگا ہے: كبھى تو 2.5 % ارھائى فيصد اور كبھى 5 % پانچ فيصد دلالى لى جاتى ہے، لھذا شرعى دلالى كيا ہے، يا يہ كہ بائع اور دلال كے اتقاق كے مطابق ہو گى؟
تو كميٹى كا جواب تھا:
جب دلال ، خريدار اور بائع كے مابين كسى معلوم تناسب سے دلالى پر اتفاق ہو كہ وہ خريدار يا بائع يا پھر دونوں سے دلالى لى جائے گى تو يہ جائز ہے، اور دلالى كى كوئى معين نسبت محدد نہيں، بلكہ ادا كرنے والے كے اتفاق پر انحصار ہے جس پر وہ متفق ہو جائز ہو گى.
ليكن يہ دلالى اتنى ہونى چاہيے جو عادتا لى جاتى ہے اور لوگوں ميں معروف ہے، جو دلال كى كوشش كے مقابلہ ميں ہوتى ہے كہ اس نے سواد كروانے ميں خريدار اور بائع كے مابين واسطہ بنا، اور عادتا سے زيادہ دلالى لے كر بائع يا پھر خريدار كو نقصان نہيں دينا چاہيے. انتھى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 130 ).
اور فتاوى جات ميں يہ بھى آيا ہے كہ:
دلال كے ليے جائز ہے كہ وہ دلالى كے بدلے ميں سامان كى قيمت سے ايك معلوم نسبت سے دلالى حاصل كرے، اور اتفاق كے مطابق خريدار يا بائع سے بغير كسى نقصان اور ضرر كے وصول كرے. انتھى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13131 )
اور اگر يہ نسبت منافع سے ہو نہ كہ سامان كى قيمت سے تو حنابلہ كے فقھاء نے اس كا جواز بيان كيا ہے، اور يہ مضاربت كے مشابہ ہے، اورمضاربت يہ ہے كہ: ايك شخص اپنا مال كسى دوسرے شخص كو تجارت كے ليے دے جس ميں منافع كى نسبت متعين ہو.
ديكھيں: مطالب اولى النھى ( 3 / 542 ) اور كشاف القناع ( 3 / 615 ).
حاصل يہ ہوا كہ: جس نسبت پر آپ كا اتقاق ہوا ہے اتنى كميشن لينا جائز ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات