نماز جمعہ كى اذان ہوتى ہے تو لوگ اٹھ كر دو يا چار ركعت ادا كرتے ہيں، ا ور پھر دوسرى اذان دينے كے بعد فورا بعد جمعہ كى نماز كے ليے اقامت كہى جاتى ہے، اور نماز جمعہ سے فراغت كے بعد لوگ دو يا چار ركعت اور ادا كرتے ہيں، اس كے ساتھ يہ بھى كہ امام ہاتھ اٹھا كر دعا كرتا اور پھر ہاتھ اپنے چہرے پر پھيرتا ہے تو سب نماز بھى ايسا ہى كرتے ہيں، كيا يہ كام بدعت ميں شمار ہوتا ہے ؟
اور اگر يہ بدعت ہے تو مجھے كيا كرنا چاہيے ( كيا ميں اپنے ارد گرد لوگوں كو ديكھتا رہوں ؟
كيا نماز كے بعد امام كا اجتماعى دعا كرنا جائز ہے ؟
كيا نماز جمعہ سے قبل اور بعد سنتيں ہيں ؟
سوال: 6653
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جمعہ كے روز اپنے گھر سے نكل كر آتے اور منبر پر تشريف لے جاتے تو مؤذن اذان كہتا، مؤذن كى اذان كے بعد رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے، اگر نماز جمعہ سے قبل سنتيں ہوتيں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم صحابہ كو ضرور بتاتے، اور اذان كے بعد سنتيں ادا كرنے كى راہنمائى ضرور كرتے، اور پھر نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں توصرف امام كے سامنے صرف ايك اذان ہى ہوتى تھى.
اور اس اذان كے بعد نماز جمعہ كا خطبہ اور خطبہ كے بعد اور نماز كى ادائيگى سے قبل ( جيسا كہ برصغير ميں بعض لوگ كرتے ہيں ) كوئى اذان نہيں بلكہ خطبہ ختم ہونے كے بعد اقامت كہہ كر نماز ادا كى جاتى تھى.
اسى ليے جمہور آئمہ كرام اس پر متفق ہيں كہ: نماز جمعہ سے قبل كوئى سنت نہيں اور نہ ہى ان كى كوئى تعداد اوروقت ومقرر ہے، كيونكہ ايسا تو صرف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے قول يا فعل سے ثابت ہوتا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس سلسلہ ميں كچھ بھى مسنون نہيں، نہ تو قولى طور پر اور نہ ہى فعلى.
امام مالك، امام شافعى، اور اكثر صحابہ كرام كا مسلك يہى ہے، اور امام احمد كے مسلك ميں يہى مشہور ہے.
عراقى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
( ميرے خيال ميں آئمہ ثلاثہ كے ہاں نماز جمعہ سے قبل سنتيں ادا كرنا مندوب نہيں )
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى اس پر تعليق كرتے ہوئے كہتے ہيں:
ميے علم كے مطابق تو اس مزعوم سنت كا امام شافعى كى كتاب الام اور امام احمد كى المسائل ميں ذكر نہيں ملتا، اور نہ ہى اس كے علاوہ متقدمين آئمہ كرام كى كتب ميں.
اس ليے ميں كہتا ہوں:
جو لوگ يہ سنتيں ادا كرتے ہيں نہ تو وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيروى اور اتباع كر رہے ہيں، اور نہ ہى اپنے آئمہ كرام كى تقليد، بلكہ انہوں نے متاخرين كى تقليد كى ہے جو خود ان كى طرح ہى مقلد ہيں نہ كہ مجتھد، بہت تعجب ہے كہ ايك مقلد دوسرے مقلد كى تقليد كر رہا ہے.
ديكھيں: القول المبين ( 60 – 374 ).
پھر مسئلہ يہ بھى ہے كہ جمعہ كى پہلى اور دوسرى اذان ميں اتنا وقفہ ہونا چاہيے كہ لوگ نماز كے ليے تيارى كر سكيں، يہ صحيح نہيں كہ ان دونوں اذانوں كے مابين صرف اتنا سا وقفہ ہو كہ دو ركعت وغيرہ ہى ادا ہو سكيں، جيسا كہ بعض مساجد اور علاقوں ميں ہوتا ہے.
رہا مسئلہ نماز كے بعد امام كے پيچھے ايك ہى آواز كيں اجتماعى دعا كرنے كا تو شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے الفتاوى ( 368 ) ميں اس كا جواب ديتے ہيں كہا ہے:
يہ بدعت ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام سے يہ ثابت نہيں، نمازيوں كے ليے مشروع تو يہ ہے كہ وہ اللہ تعالى كا ذكر كريں، اور وہ دعائيں اور اذكار پڑھيں جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے وارد ہيں، اور يہ بلند آواز سے پڑھى جائيں جيسا كہ بخارى شريف كى مندرج ذيل حديث ميں ہے:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں جب لوگ نماز سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے اذكار كرتے تھے
نماز جمعہ كے بعد نماز كے متعلق ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز جمعہ ادا كر ليتے تو اپنے گھر تشريف لے جاتے اور وہاں جا كر جمعہ كى دو سنتيں ادا كرتے، اور نماز جمعہ ادا كرنے والے شخص كو حكم ديا كہ وہ نماز جمعہ كے بعد چار ركعت ادا كرے.
ہمارے استاد اور شيخ ابو العباس ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اگر مسجد ميں ادا كرے تو چار ركعت ادا كرے، اور اگر اپنے گھر ميں ادا كرے تو دو ركعت ادا كرے.
ديكھيں: زاد المعاد ( 1 / 440 ).
ميں كہتا ہوں: احاديث بھى اسى پر دلالت كرتى ہيں، ابو داود رحمہ اللہ تعالى نے سنن ابو داود ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ جب وہ مسجد ميں ادا كرتے تو چار ركعت اور جب گھر ميں ادا كرتے تو دو ركعت ادا كرتے تھے.
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1130 ).
اور دعاء كے بعد چہرے پر ہاتھ پھيرنا كسى بھى صحيح حديث ميں ثابت نہيں، بلكہ بعض اہل علم نے تو اسے بدعت كہا ہے.
ديكھيں: معجم البدع ( 227 ).
لہذا آپ بدعت پر عمل نہ كريں، اور نہ ہى اس ميں شريك ہوں ليكن آپ انہيں سنت پر عمل كرنے كى نصيحت كريں، اور لوگوں وعظ كريں، اور انہيں شرعى حكم بتائيں.
اللہ تعالى سے ہمارے دعا ہے كہ وہ ہم سب كو صراط مستقيم پر چلائے اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد