0 / 0
6,32009/01/2008

كيا داڑھى كى كوئى مستحب لمبائى پائى جاتى ہے ؟

سوال: 6657

كيا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے داڑھى كى كوئى مستحب لمبائى وارد ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

داڑھى كے ليے مستحب لمبائى يا داڑھى كى كوئى حد نہيں پائى جاتى، كيونكہ اس كے متعلق نبى كريم صلى اللہ وسلم سے وارد نہيں، بلكہ صرف اسے اپنى حالت ميں باقى ركھنا ہى ثابت ہے.

امام مسلم رحمہ اللہ نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:

” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى داڑھى كے بال بہت زيادہ تھے ”

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2344 ).

اور نسائى شريف ميں براء رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ:

” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بہت زيادہ گھنى داڑھى والے تھے”

اور ايك روايت ميں ہے:

” كثيف اللحيۃ ”

اور ايك روايت ميں ” عظيم اللحيۃ ” كے الفاظ ہيں.

سنن نسائى حديث نمبر ( 5232 ).

بعض اہل علم نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے فعل كى بنا پر ايك مٹھى سے زيادہ كے بعد كاٹنے كى اجازت دى ہے، اور اكثر علماء كرام اسے مكروہ سمجھتے ہيں، اور يہى زيادہ بہتر بھى ہے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايسا ثابت نہيں، جيسا كہ اوپر بيان بھى ہو چكا ہے.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اور مختار يہى ہے كہ داڑھى كو اپنى حالت پر چھوڑ ديا جائے، اور اسے كچھ نہ كہا جائے، اور ا سكا بالكل كوئى بال نہ كاٹا جائے. اھـ

ديكھيں: تحفۃ الاحوذى ( 8 / 39 ).

اور جس حديث ميں يہ بيان ہوا ہے كہ:

” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى داڑھى كے طول و عرض ميں سے كاٹا كرتے تھے ”

يہ حديث موضوع اور مكذوب ہے، اس كا كوئى ثبوت نہيں ملتا.

ديكھيں: العلل المتناھيۃ ابن جوزى ( 2 / 686 ).

اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

يقينا تمہارے ليے رسول ( كريم صلى اللہ عليہ وسلم ) ميں بہترين نمونہ ہے، ہر اس شخص كے ليے جو اللہ تعالى اور قيامت كے دن كى توقع ركھتا ہے الاحزاب ( 21 ).

اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان كچھ اس طرح ہے:

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تمہيں جو كچھ ديں اسے لے لو، اور جس سے روكے اس سے رك جاؤ الحشر ( 7 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

داڑھى كى حد جيسا كہ اہل لغت نے بيان كيا ہے: وہ چہرے اور دونوں جبڑوں اور رخساروں پر اگے ہوئے بال ہيں.

يعنى دوسرے معنوں ميں يہ كہ جو بال بھى رخساروں، اور جبڑے كى ہڈي اور تھوڑى پر ہيں وہ داڑھى ميں شامل ہں، اور ان بالوں ميں سے كوئى بال بھى كاٹنا معصيت و نافرمانى ميں شامل ہوتا ہے.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:

” داڑھيوں كو معاف كر دو …. “

اور ايك حديث ميں فرمايا:

” داڑھيوں كو بڑھاؤ اور لمبا كرو اور لٹكاؤ ”

اور ايك روايت ميں فرمايا:

” داڑھيوں كو وافر كرو ”

اور ايك روايت ميں فرمايا:

” داڑھيوں كو پورا كرو ”

يہ سب اس كى دليل ہے كہ داڑھى ميں سے كچھ بھى كاٹنا جائز نہيں، ليكن معصيت و نافرمانى كے درجات ہيں، لہذا داڑھى منڈوانا داڑھى كٹوانے سے بڑى معصيت و نافرمانى ہے، كيونكہ يہ كاٹنے سے واضح اور بڑى مخالفت ہے. اھـ.

مزيد تفصيلات كے ليے آپ سوال نمبر (1189 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ

الشیخ محمد صالح المنجد

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android