كيا ظہر اور عصر كى نماز سرى اور باقى فرض جھرى ادا كرنے ميں كوئى معين حكمت ہے ؟
جھرى اور سرى نمازوں ميں كيا حكمت ہے ؟
سوال: 67672
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
جو نماز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جھرى ادا كى اس ميں جھر ہے، اور جو سرى ادا كى وہ سرى ادا ہو گى، يہ نماز كى سنن ميں شامل ہے نہ كہ واجبات ميں، نماز كے ليے افضل يہى ہے كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت اور طريقہ سے تجاوز نہ كرے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
جھرى نمازوں ميں جھرى قرآت كرنا وجوب كى بنا پر نہيں، بلكہ يہ تو افضل ہے، اگر كسى شخص نے جھرى نماز ميں سرى قرآت كر لى تو اس كى نماز باطل نہيں ہو گى؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے سورۃ الفاتحہ نہ پڑھى اس كى نماز نہيں ہے"
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس قرآت كو جھرى يا سرى سے مقيد نہيں فرمايا، لہذا اگر كوئى شخص واجب كردہ قرآت كو جھرى يا سرى پڑھے تو اس نے واجب ادا كر ديا، ليكن اس كے ليے جس ميں جھرى قرآت كرنا مسنون ہو مثلا نماز جمعہ اور فجر كى نماز تو اس ميں جھرى قرآت كرنا ہى افضل ہے.
اور اگر كوئى امام ہوتے ہوئے عمدا جھرى قرآت نہ كرے تو اس كى نماز صحيح ہے، ليكن ناقص ہو گى.
ليكن انفرادى نماز ادا كرنے والا شخص جب جھرى نمازوں ميں سے كوئى نماز ادا كرے تو اسے جھرى يا سرى قرآت كرنے ميں اختيار ہے، وہ ديكھے كہ اس كے ليے كيا زيادہ نشاط كا باعث اور كس سے زيادہ خشوع حاصل ہوتا ہے، وہ ايسا ہى كرے " انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 13 / 73 ).
دوم:
مسلمان شخص كے ليے اصل تو يہ ہے كہ وہ اللہ تعالى كى شريعت پر عمل كرے، اور اسے اس كى حكمت يا علت كے علم ہونے پر معلق نہ كرے، ليكن اس حكم پر عمل پيرا ہونے اور اس طريقہ كا التزام كرنے كے بعد اس كى حكمت جاننے اور تلاش كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 20785 ) اور ( 26862 ) كے جوابات ضرور ديكھيں.
سوم:
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے دريافت كيا گيا:
ہم ظہر اور عصر كى نماز سرى اور مغرب و عشاء كى جھرى كيوں ادا كرتے ہيں ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" ہم اس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا اور پيروى كرتے ہيں جس ميں انہوں نے سرى قرآت كى ہم بھى سرى كرتے ہيں، اور جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جھرى قرآت كى ہم بھى جھرى قرآت كرتے ہيں؛ كيونكہ اللہ عزوجل كا فرمان ہے:
يقينا تمہارے ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ ميں بہترين نمونہ ہيں الاحزاب ( 21 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم نماز اس طرح ادا كرو جس طرح تم نے مجھے نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا ہے "
اسے امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح بخارى ميں روايت كيا ہے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 394 – 395 )
شيخ ابن باز رحمہ ا للہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ہم باقى فرضى نمازوں كے علاوہ نماز مغرب اور عشاء اور فجر ميں جھرى قرآت كيوں كرتے ہيں، اور اس كى دليل كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" ان نمازوں ميں جھرى قرآت كى مشروعيت كى حكمت اللہ سبحانہ وتعالى ہى زيادہ جانتا ہے، زيادہ قريب يہ معلوم ہوتا ہے ـ واللہ اعلم ـ اس ميں حكمت يہ ہے كہ: لوگ رات اور نماز فجر ميں جھرى قرآت سے زيادہ استفادہ كرتے ہيں، اور نماز ظہر اور عصر كى بنسبت وہ زيادہ مشغول نہيں ہوتے " انتھى
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 11 / 122 ).
شيخ محمد بن صالح عثيمين رحمہ اللہ تعالى عنہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
نماز جمعہ ميں جھرى قرآت كرنے كى حكمت كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" اس ميں جھرى قرآت كرنے كى حكمت يہ ہے كہ:
اول: زيادہ علم تو اللہ كے پاس ہے، اس ميں حكمت يہ ہے كہ: ايك ہى امام كے ساتھ وحدۃ و اجتماعيت پيدا ہو سكے، كيونكہ سب لوگوں كا خاموش ہو كر ايك ہى امام كے ساتھ جمع ہونے ميں اس سے زيادہ اجتماعيت ہے كہ ہر شخص سرى طور پر اپنى اپنى قرآت كرتا رہے، اور اس حكمت كو پورا كرنے كے ليے سب لوگوں كو ايك ہى جگہ پر جمع ہونا واجب ہے، ليكن كسى ضرورت كى بنا پر نہيں.
دوسرى حكمت:
امام كى نماز ميں جھرى قرآت دونوں خطبوں كى تكميل كى جگہ پر ہے، اور اسى وجہ سے نبى كريم صلى اللہ عليہ و سلم نماز جمعہ ميں كوئى مناسب سى سورۃ " سورۃ الجمعۃ، اور المنافقين " پڑھتے تھے، كيونكہ پہلى سورۃ ميں نماز جمعہ كا ذكر اور اس پر ابھارا گيا ہے، اور دوسرى سورۃ ميں منافقين اور نفاق كى مذمت ہے، اور يا پھر " سورۃ الاعلى اور الغاشيۃ " پڑھتے كيونكہ پہلى سورۃ ميں مخلوق كى ابتدا اور مخلوقات كى صفت اور شرائع كى ابتدا كا ذكر ہے، اور دوسرى سورۃ ميں قيامت اور جزاء و سزا كا ذكر ہے.
تيسرى حكمت:
ظہر اور نماز جمعہ كے مابين فرق.
چوتھى حكمت:
تا كہ يہ نماز عيد كے مشابہ ہو، كيونكہ نماز جمعہ ہفتہ وار عيد ہے" انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 16 / 112 ).
مزيد تفصيل كے آپ سوال نمبر ( 65877 ) كا جواب بھى ملاحظہ كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات