جامع مسجد ميں جوتوں سميت نماز ادا كرنے كا حكم كيا ہے، اور دليل يہ دينا كہ جوتے كھولنے اور بند كرنے مشكل ہيں اور وقت بھى تنگ ؟
قالين والى مسجد ميں جوتوں سميت نماز ادا كرنا
سوال: 69793
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جوتوں سميت نماز ادا كرنا مباح امور ميں شامل ہوتا ہے، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہوديوں كى مخالفت ميں اس كا حكم ديا، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام اپنے جوتوں سميت نماز ادا كيا كرتے تھے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كو حكم ديا كہ وہ اپنے جوتوں كو ديكھيں كہ كہيں اس ميں گندگى ہى نہ لگى ہو.
اور ايك موقع پر جبريل امين عليہ السلام كے بتانے پر كہ جوتے ميں گندگى ہے دوران نماز ہى جوتا اتار ديا، اور صحابہ كرام نے بھى اپنے جوتے اتار ديے، يہ سب واقعات صحيح احاديث ميں موجود ہيں، اور ذيل كى سطور ميں مستقل فتوى كميٹى كا فتوى بھى بيان كيا جائيگا.
بلاشك اس وقت ان كى مساجد ميں قالين نہ تھے، بلكہ ان ميں ريت اور كنكرياں ہوتى جو جوتے سميت داخل ہونے سے متاثر نہيں ہوتى تھى، ليكن آج كى مساجد ميں قالين بچھا ديے گئے ہيں، چنانچہ جوتوں سميت مسجد ميں جانے سے مسجد ميں گرد وغبار اور گندگى پھيلے گى، اور بعض لوگ اس ميں سستى اور كاہلى سے كام ليتے ہوئے ايسے ہى مسجد ميں داخل ہو جائيں اوران كے جوتوں كو گندگى اور نجاست لگى ہوئى ہو.
اور اگر ہم جوتوں سميت قالين پر نماز ادا كرنے كى اجازت دے ديں تو پھر ہميں صفائى كے ليے مسجد ميں بہت سے ملازم ركھنا پڑينگے، ہم يہ نہيں كہتے كہ ہر روز بلكہ وہ ہر نماز كے بعد مسجد كى صفائى كريں، ہمارے خيال كے مطابق اسے قبول كرنے والا شخص مٹى اور گرد و غبار سے بھرے ہوئے قالين پر نماز ادا كرنے پر راضى نہيں ہو گا، چہ جائيكہ لوگوں كى سستى اور كاہلى سے اس كے علاوہ دوسرى گندگى يا نجاست پر.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
مسجد ميں جوتوں سميت داخل ہونے كے متعلق اختلاف پيدا ہو گيا ہے، چنانچہ اس سلسلے ميں شرعى حكم كيا ہے ؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
” مسجد ميں جوتوں سميت داخل ہونا اور جوتوں سميت نماز ادا كرنا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ ہے؛ چنانچہ ابو داود رحمہ اللہ تعالى سنن ابو داود ميں اپنى سند كے ساتھ ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث بيان كرتے ہيں:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم صحابہ كرام كو ايك روز نماز پڑھا رہے تھے كہ دوران نماز ہى جوتے اتار كر اپنى بائيں جانب ركھ ليے، جب لوگوں نے ديكھا تو انہوں نے بھى اپنے جوتے اتار ديے، چنانچہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمانے لگے:
” تمہيں كس چيز نے اپنے جوتے اتارنے پر ابھارا ؟ ”
صحابہ كرام نے عرض كيا: ہم نے آپ كو جوتا اتارتے ہوئے ديكھا تو ہم نے بھى اپنے جوتے اتار ديے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
” ميرے پاس جبريل امين آئے اور بتايا كہ جوتوں ميں گندگى ہے, اور فرمايا: جب تم ميں سے كوئى شخص مسجد آئے تو وہ ديكھے اور اگر اپنے جوتے ميں گندگى لگى ہوئى ديكھے تو اسے زمين پر رگڑ كر ان جوتوں سميت نماز ادا كر لے ”
اور ابو داود رحمہ اللہ نے يعلى بن شداد بن اوس عن ابيہ كى سند سے روايت كيا ہے كہ وہ بيان كرتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” يہوديوں كى مخالفت كرو كيونكہ وہ اپنے جوتوں اور موزوں ميں نماز ادا نہيں كرتے ”
اور ابو داود رحمہ اللہ نے عمرو بن شعيب عن ابيہ عن جدہ كى سند سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں:
” ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ننگے پاؤں اور جوتوں ميں نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا ”
اسے ابن ماجہ نے روايت كيا ہے.
ليكن قيمتى قسم كے قالين مسجدوں ميں بچھانے كے بعد مسجد ميں داخل ہونے والوں كو چاہيے كہ اگرچہ جوتے پاك بھى ہوں تو وہ صفائى كو مد نظر ركھتے ہوئے جوتے اتار ليں، تا كہ نمازيوں كو اذيت نہ ہو، اور ہو سكتا ہے جوتوں كے نيچے لگى ہوئى گندگى قالين كو نہ لگ جائے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 213 – 214 )
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:
جوتوں سميت نماز ادا كرنے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
” جوتے صاف ہوں تو ان ميں نماز ادا كرنا مستحب ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جوتوں ميں نماز ادا كرتے تھے، اور اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” يہودى اور عيسائى اپنے جوتوں اور موزوں ميں نماز ادا نہيں كرتے چنانچہ تم ان كى مخالفت كرو ”
اور جو كوئى ننگے پاؤں نماز كرے تو اس ميں بھى كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بعض اوقات ننگے پاؤں نماز ادا كرنا ثابت ہے.
اور اگر مسجد ميں قالين وغيرہ بچھے ہوں تو جوتے اتارنا اولى ہيں تا كہ قالين گندا نہ ہو، اور مسلمان اس پر سجدہ كرنے سے نفرت نہ كرنے لگيں ” انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز
اور شيخ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
” اور ميں نے اپنے سلفى بھائيوں كو نصيحت كى ہے وہ اس مسئلہ ـ يعنى مسجد ميں جوتوں سميت نماز ادا كرنا ـ ميں تشدد سے كام نہ ليں، كيونكہ فرق يہ ہے كہ آج مساجد ميں قالين وغيرہ بچھا ديے گئے ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں مسجد نبوى ميں قالين نہ تھے.
ان كے ليے ميں نے سنت نبويہ ميں سے ايك اور قصہ كے ساتھ مقارنہ كيا ہے: يہ كہ اگر دوران نماز كسى كو تھوك يا بلغم وغيرہ آ جائے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم ہے كہ وہ اپنى بائيں جانب يا پھر اپنے قدموں كے نيچے تھوكے، يہ واضح ہے كہ ايسا اس صورت ميں ہو سكتا ہے وہاں زمين ہو ـ يعنى مسجد كى زمين مٹى والى ہو جہاں تھوكا جائے ـ جس ميں مٹى اور ريت وغيرہ ہو، ليكن آج مساجد ميں قالين بچھے ہوئے ہيں، تو كيا آپ كہتے ہيں كہ مسجد ميں قالين پر تھوكنا جائز ہے ؟! تو يہ بھى اسى طرح ہے ” انتہى
علامہ البانى رحمہ تعالى نے جو كچھ كہا ہے، اس سے قبل امام احمد رحمہ اللہ بھى يہى كہہ چكے ہيں.
چنانچہ ابن رجب رحمہ اللہ تعالى ” فتح البارى ” ميں بكر بن محمد سے نقل كرتے ہيں:
ميں نے ابو عبد اللہ ـ يعنى امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ـ سے كہا:
مسجد ميں ايك شخص تھوك كر اپنے پاؤں كے ساتھ رگڑ دينے كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟
ان كا كہنا تھا: يہ سارى حديث ميں نہيں ، ان كا كہنا تھا: مساجد ميں چٹائياں بچھا دى گئى ہيں، يہ اس طرح نہيں رہيں جس طرح پہلے تھيں.
انہوں نے كہا: زيادہ تعجب يہ ہے كہ اگر وہ نماز كے دوران تھوكنا چاہے تو جب تھوك مسجد كے علاوہ كہيں اور گرے تو اپنى بائيں جانب تھوكے، اور اگر وہ مسجد ميں ہو اور مسجد كے باہر تھوك نہ گرے تو وہ اسے كپڑے ميں تھوك لے ” انتہى
البوارى: بنى ہوئى چٹائى كو كہتے ہيں، جيسا كہ القاموس المحيط ميں ہے.
چنانچ انہوں نے بيان كيا ہے كہ مسجد ميں تھوك كر پاؤں كے ساتھ ملنا اس وقت تھا جب مساجد ميں چٹائياں نہيں بچھى ہوتى تھيں.
اور اگر جوتے اتارنے ميں مشكل ہو، مثلا وہ جوتے جو فوجى پہنتے ہيں ان كے ليے جوتے صاف ہونے كا يقين ہونے پر جوتے سميت نماز ادا كرنى جائز ہے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا مسجد ميں جوتے خاص كر لمبے فوجى جوتوں ميں نماز ادا كرنا جائز ہے ، خاص كر فوجيوں كا كام ہميشہ جوتے پہننے كا متقاضى ہے، يہ علم ميں رہے كہ آج مساجد ميں قالين وغيرہ بچھائے جا چكے ہيں ؟
كميٹى كا جواب تھا:
” اگر جوتے پاك صاف ہوں تو مسجد ميں جوتوں سميت داخل ہونا اور ان ميں نماز ادا كرنا جائز ہے، ليكن مسجد ميں داخل ہوتے وقت يہ خيال ركھنا چاہيے كہ جوتے صاف ہوں اور گندگى وغيرہ نہ لگى ہو ” انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 215 – 216 )
اس بنا پر اب مساجد ميں جوتوں سميت نماز نہيں كرنى چاہيے، ليكن جس كے ليے جوتے كھولنے ميں مشقت ہو تو وہ ان كے صاف ہونے كا يقين كر لينے كے بعد جوتوں سميت نماز ادا كر لے، اور اپنے ساتھ والے اذيت نہ دے، اور اگر ايسا كرنے سے اختلاف اور بغض اور نفرت پيدا ہوتى ہو تو مسلمانوں كے مابين محبت و الفت پيدا كرنے كے ليے جوتے اتارنا، اور اس سبب كا باعث بننا جس سے دشمنى و بغض پيدا ہوتا ہو ترك كرنا اولى اور بہتر ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيروى كرتے ہوئے اس سنت پر گھر ميں عمل كيا جا سكتا ہے، جہاں كوئى فساد كا خطرہ نہيں، يا پھر خالى زمين جہاں قالين نہ بچھے ہوں نماز ادا كى جا سكتى ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب