بيوى كو قالين اور بستر وغيرہ كى فہرست لكھى گئى اور شرط يہ ركھى گئى كہ اگر وہ ايك برس تك بغير كسى مشكل پيدا كيے اس كے ساتھ رہے گى تو يہ اسے ديے جائينگے، ليكن پہلے مہينہ سے ہى بيوى نے اس شرط پر عمل نہ كيا اور ہر بار وہى عورت ہى غلط ہو گى، تو يہ فہرست بطور امانت ركھنے والا شخص كيا موقف اختيار كرے ؟
قالين وغيرہ كى فہرست اور ايك سال تك بغير مشكل پيدا كيے اكٹھے رہنے كى شرط
سوال: 69814
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
يہ فہرست دو حالتوں سے خالى نہيں:
پہلى حالت:
يا تو يہ مہر كے ساتھ ملحق ہے، جيسا كہ بعض علاقوں ميں ہوتا ہے، تو اس طرح سونا يا نقدى وغيرہ جو كچھ بيوى كو ديا جاتا ہے وہ سب مہر ہو گا، اور جو سامان كى فہرست لكھى جاتى ہے وہ اس مبلغ اور رقم ميں مؤخر طور پر اضافہ ہو گى، لہذا اگر معاملہ ايسا ہى ہے اور يہ فہرست مہر كے ساتھ ملحق تھى تو يہ مہر ميں اضافہ ہے جو ايك شرط كے ساتھ معلق ہے، وہ يہ كہ اگر بيوى ايك برس تك خاوند كے ساتھ بغير كسى مشكل كے رہے گى تو يہ ادا كى جائيگى، اور مہر كو كسى شرط پر معلق ركھ كر زيادہ كرنے ميں فقھاء كرام كا اختلاف ہے، كچھ تو اسے جائز قرار ديتے ہيں اور كچھ اس كو ممنوع كہتے ہيں.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے اس شرط كے جواز كو اختيار كيا ہے جب كہ اس كى غرض اور مقصد صحيح ہو، اور بلاشك و شبہ بيوى كا اپنے خاوند كے ساتھ حسن معاشرت سے رہنا ايك صحيح مقصد اور اچھى غرض ہے، تو اس بنا پر يہ شرط صحيح ہو گى اور اگر وہ اس شرط پر پورى نہيں اترتى تھى تو آپ كے ليے اسے سامان كى فہرست ميں لكھا گيا سامان دينا لازم نہيں.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 268 – 270 ).
دوسرى حالت:
يہ فہرست مہر كے ساتھ ملحق نہ ہو، بلكہ يہ خاوند كى جانب سے ہبہ اور انعام ہو جو اس نے ايك برس كے دوران بيوى كا كوئى مشكل اور اختلاف پيدا نہ كرنے كے ساتھ مشروط ہو.
اور كسى شرط كے ساتھ معلق ہبہ صحيح ہے، اور يہ اس وقت ہى لازم ہو گا جب شرط پورى ہو، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے يہى اختيار كيا ہے .
ديكھيں: الانصاف ( 7 / 133 ).
حاصل يہ ہوا كہ: بيوى اس سامان كى مستحق نہيں كيونكہ اس نے شرط پر عمل نہيں كيا، چاہے سامان كى وہ فہرست مہر كے ساتھ ملحق تھى يا پھر خاوند كى جانب سے ہبہ تھا.
ليكن …. جب تنازع پيدا ہو جائے اور بيوى يہ دعوى كرے كہ اس نے شرط پورى كى ہے، اور اس ميں كمى و كوتاہى تو خاوند كى جانب سے تھى، تو يہاں معاملہ كو شرعى عدالت ميں پيش كرنا ضرورى ہے، يا پھر كسى ايسے شخص كے سامنے ركھا جائے جو ان دونوں كے مابين فيصلہ كرے اور تنازع كو ختم كرائے.
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب