ميں قسطوں ميں گاڑى خريدنا چاہتا ہوں، اس كا طريقہ كچھ اس طرح ہے كہ ميں كچھ رقم تو نقد ادا كروں اور باقى قيمت ماہانہ قسطوں ميں تقسيم كر دى جائيگى، اور آخرى قسط كى ادائيگى كے بعد گاڑى ميرے نام منتقل ہوگى، يہ علم ميں ركھيں كہ آخرى قسط بھى عام قسطوں جتنى ہى ہے.
گاڑى كى آخرى قسط ديے بغير گاڑى اپنے نام كروانا
سوال: 69877
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
قسطوں ميں اشياء كى خريدارى كرنے ميں كوئى حرج نہيں، چاہے اس ميں كچھ رقم پيشگى ادا كى جائے يا نہ، ليكن اس ميں شرط يہ ہے كہ اس خريدارى كے معاہدے ميں يہ شرط نہ ركھى جائے كہ اگر قسط ليٹ ہو گئى تو جرمانہ كى ادائيگى كرنا ہوگى، كيونكہ يہ شرط سود ميں سے ہے.
دوم:
جب خريدارى كا معاہدہ طے پا جائے تو آپ گاڑى كے مالك بن جائينگے، چاہے آپ نے كوئى قسط بھى ادا نہيں كى، تو آپ گاڑى اپنے نام كروا سكتے ہيں، اور گاڑى كى قيمت ميں سے باقى مانندہ رقم آپ كے ذمہ قرض ہوگى.
سوم:
خريدار كے نام گاڑى لكھى جانے سے مراد خريدار كے حق كى توثيق ہے، نہ كہ يہ بيع و شراء كے صحيح ہونے كى شرط، اور صرف عقد اور معاہدہ ہونے كى صورت ميں فروخت كردہ چيز خريدار كى ملكيت ميں آ جائيگى چاہے وہ خريدى ہوئى چيز اس كے نام منتقل كى جائے يا فروخت كرنے والے كے نام ہى رہے.
چہارم:
فروخت كرنے والے كو حق حاصل ہے كہ وہ اپنے حق كو مضمون ركھنے كے ليے كسى چيز كو رہن ركھنے كى شرط ركھے، اور اسے يہ بھى حق ہے كہ وہ اسى گاڑى كو بطور رہن ركھ لے، وہ اس طرح كہ خريدارى گاڑى كى مكمل قسطيں ادا كرنے سے قبل گاڑى كو فروخت كرنے كا تصرف نہ كر سكے، بلكہ وہ اسے رہن سے چھڑا كر فروخت كر سكتا ہے، اور فقھاء كرام نے اس كے جواز كا فيصلہ كيا ہے .
الكشفا القناع ميں ہے:
فروخت كردہ چيز كو اس كى قيمت ميں رہن ركھنا صحيح ہے، اور اگر وہ يہ كہے كہ: ميں نے يہ چيز تجھے اس شرط پر فروخت كى كہ تو اسے اس كى قيمت كے بدلے ميرے پاس رہن ركھےگا، تو خريدار كہے: ميں نے اسے خريد كر تيرے پاس رہن ركھا تو يہ خريدارى اور رہن صحيح ہے ” انتہى.
ديكھيں: كشاف القناع ( 3 / 189 ).
اس بنا پر اگر تو گاڑى آپ كے نام منتقل ہونے كا سبب وثوق زيادہ اور پختہ كرنا ہے كہ كہيں آپ قسطوں كى ادائيگى سے قبل ہى گاڑى فروخت نہ كرديں تو پھر يہ بيع اور سودا صحيح ہونے پر كوئى اثرانداز نہيں ہوگا؛ كيونكہ بيان كيا جا چكا ہے كہ يہ لكھائى صرف توثيق اور پختگى كے ليے ہے، ليكن آپ صرف عقد اور معاہدہ كى بنا پر ہى شرعى طور پر آپ اس گاڑى كے مالك بن چكے ہيں، چاہے يہ گاڑى رہن ركھى ہوئى ہے تو آپ اسے رہن سے چھڑائے بغير فروخت نہيں كر سكتے يا پھر فروخت كرنے والا اسے آگے فروخت كرنے كى اجازت نہ دے دے.
كبار علماء كرام كى مجلس كى رائے ہے كہ:
فروخت كرنے كے جائز ہے كہ وہ پختگى اور توثيق كى زيادتى كے ليے گاڑى كے كاغذات اپنے پاس محفوظ ركھے، علماء كا كہنا ہے:
مجلس يہ خيال ركھتى ہے كہ: خريدار اور بائع دونوں صحيح طريقہ پر عمل كريں, وہ يہ كہ وہ ايك چيز كو فروخت كرے اور اسے اس كى قيمت كے بدلے رہن ركھ لے، اور اس ميں احتياط ليتے ہوئے اپنے پاس گاڑى كے كاغذات وغيرہ يا معاہدے كا اسٹام محفوظ ركھے” انتہى.
يہاں ہم ايك چيز كى تنبيہ كرنا چاہتے ہيں كہ: جو كچھ بيان كيا گيا ہے اس كے مشابہ ايك اور صورت پائى جاتى ہے وہ يہ كہ:
كرايہ كا معاہدہ جو مليكت پر جا كر ختم ہوتا ہے، اور اس ميں يہ ہوتا ہے كہ گاڑى كرايہ پر دينے والا شخص گاڑى كى ملكيت گاڑى كى آخرى قسط، يا اجرت ادا ہونے تك اپنے پاس ركھتا ہے، اور يہ معاہدہ حرام ہے، اس كے متعلق اسلامى فقہ اكيڈمى اور كبار علماء كميٹى كا فيصلہ بھى صادر ہو چكا ہے.
مزيد تفصيل كے آپ سوال نمبر (14304 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات