ايك شخص پرنٹنگ پريس كا مالك ہے، كيا پرنٹنگ پريس كى مشينرى اور اسى طرح اس ميں پائے جانے والے سامان پر زكاۃ واجب ہوتى ہے، يا كہ زكاۃ صرف اس كى پيداوار پر ہے ؟
كيا پرنٹنگ پريس كى مشينرى پر زكاۃ ہے ؟
سوال: 69916
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
سوال نمبر ( 74987 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ فيكٹريوں، اور مشينرى، اور آلات جو استعمال كے ليے ہوں نہ كہ تجارت كے ليے، ان ميں زكاۃ نہيں، بلكہ اس فيكٹرى اور آلات سے حاصل كردہ پيداوار اور منافع جب نصاب كو پہنچ جائے اور اس پر سال مكمل ہو تو اس ميں زكاۃ ہو گى.
اس بنا پر؛ پرنٹنگ پريس ميں پائى جانى والى مشينرى ميں زكاۃ نہيں ہے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى اس جيسا ہى ايك سوال دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
" پرنٹنگ پريس اور فيكٹريوں وغيرہ كے مالكوں پر ان اشياء ميں زكاۃ ہے جو فروخت كے ليے تيار كردہ ہوں، ليكن وہ اشياء جو استعمال كے ليے ہيں ان ميں زكاۃ نہيں، اور اسى طرح وہ گاڑياں، قالين، اور برتن جو استعمال كے ليے ہوں ان ميں زكاۃ نہيں ہے.
اس كى دليل ابو داود كى حسن سند كے ساتھ روايت كردہ مندرجہ ذيل حديث ہے.
سمرہ بن جندب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہميں ان كى زكاۃ نكالنے كا حكم ديا كرتے تھے جو ہم فروخت كے ليے تيار كرتے" اھـ
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 14 / 186 – 187 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص لانڈرى كا مالك ہے، بعض لوگوں نے اسے كہ ہے كہ آپ اس كى مشنيرى كى زكاۃ ادا كريں، تو كيا ان كى يہ بات صحيح ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" زكاۃ تو تجارتى سامان ميں واجب ہوتى ہے، اور تجارتى سامان وہ ہے جو اسنان تجارت كرنے كے ليے تيار كرے، اور وہ اس كے پاس آئے اور اس كى ہاتھ سے نكلے، جب بھى وہ اس ميں منافع ديكھے اسے فروخت كردے، اور جب بھى ديكھے كہ اس ميں كمائى نہيں ہو رہى وہ اسے فروخت نہ كرے.
لانڈرى كى مشينرى تجارت ميں شامل نہيں ہوتى، كيونكہ لانڈرى كا مالك اسے اپنے پاس ركھنا چاہتا ہے، تو يہ بالكل اسى طرح ہے جيسے انسان اپنے گھر ميں قالين اور برتن وغيرہ ركھتا ہے، لہذا اس ميں زكاۃ نہيں، اور جس نے اسے كہا ہے كہ اس ميں زكاۃ ہے وہ غلطى پر ہے" .
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 18 / 207 ).
دوم:
اس پرنٹنگ پريس كے منافع ميں زكاۃ ہو گى ليكن وہ بھى اس وقت جب وہ نصاب كو پہنچے اور اس پر سال مكمل ہو جائے، تو اس سے دس كا چوتھائى حصہ يعنى اڑھائى فيصد ( 2.5 % ) زكاۃ نكالى جائے گى.
سوم:
اور پرنٹنگ پريس كى كچھ اشياء ايسى بھى ہيں جو تجارتى سامان شمار ہونگى، اور يہ سامان ہر وہ چيز ہے جو پريس نے اس ہدف سے خريدى ہيں كہ اسے دوبارہ فروخت كيا جائے گا، چاہے اس ميں كچھ نہ كچھ تبديلى كى جائے.
مثلا: كاغذ، سياہى، اور كتابوں كى جلدوں ميں استعمال ہونے والى اشياء كتابيں پريس كى ملكيت ہيں، جو كہ اس نے فروخت كرنے كے ليے چھاپى ہيں… الخ.
يہ سب اشياء تجارتى سامان شمار ہونگى اور ہر سال كے آخر ميں ان كى قيمت لگا كر اس ميں سے اڑھائى فيصد ( 2.5 % ) كے حساب سے زكاۃ ادا كى جائے گى.
ديكھيں: مجلۃ المجمع الفقھى ( 4 / 1 / 735 ) سرچ ڈاكٹر وہبہ الزحيلى.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات