موسم حج ميں ميرى ڈيوٹى بطور ڈاكٹر لگى، مكہ داخل ہوتے وقت نہ تو ميں عمرہ كر سكتا ہوں اور نہ ہى احرام باندھ سكتا ہوں، مجھے كيا كرنا ہو گا، كيونكہ ڈيوٹى ختم ہونے كے بعد ميرے پاس دو دن ہونگے، اور ميں واپس جانے سے قبل عمرہ كى ادائيگى كرنا چاہتا ہوں ؟
حج اور عمرہ كى نيت سے بغير احرام ميقات تجاوز كرنا
سوال: 69934
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اگر آپ اس سفر ميں عمرہ كرنے كا يقينى ارادہ نہيں ركھتے تو پھر آپ كو ميقات سے احرام باندھنا لازم نہيں، اور اگر بعد ميں آپ عمرہ كرنا چاہيں تو آپ حرم كى حدود سے باہر جا كر مثلا تنعيم وغيرہ احرام باندھ كر عمرہ كر ليں.
ليكن اگر آپ اس سفر ميں عمرہ كرنے كا ارادہ ركھتے ہوں تو پھر آپ كے ليے ميقات سے احرام باندھنا واجب ہے، كيونكہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ميں ہے:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اہل مدينہ كے ليے ذوالحليفہ اور اہل شام كے ليے جحفہ، اور اہل نجد كے ليے قرن منازل، اور اہل يمن كے ليے يلملم ميقات مقرر كيا، اور فرمايا: يہ تو ان كے ليے ہيں، اور جو بھى اس كے رہنے والوں كے علاوہ ان كےپاس سے گزرے اور وہ حج اور عمرہ كرنا چاہتا ہو تو اس كے ليے بھى يہ ميقات ہيں، اور جو ان كے اندر ہيں تو اس كے احرام كى جگہ اس كى رہائش ہے، اور اسى طرح حتى كہ اہل مكہ مكہ سے ہى احرام باندھيں گے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1454 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1181)
چنانچہ جو شخص بھى حج يا عمرہ كا ارادہ ركھتے ہوئے ان ميقات سے گزرے اس يہاں سے احرام باندھنا واجب ہے، اور اگر وہ ان ميقات كے اندر رہائش پذير ہو تو وہ اپنى جگہ سے ہى احرام باندھےگا، اور اگر مكہ ميں رہتا ہو تو حج كے ليے اپنى جگہ سے ہى اور عمرہ كے ليے حرم كى حدود سے باہر حل مثلا تنعيم يا عرفات ميں كسى بھى جگہ سے احرام باندھ سكتا ہے؛ كيونكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ميں ہے:
" جب انہوں نے حج كے بعد عمرہ كرنا چاہا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے بھائى كو حكم ديا كہ وہ انہيں حل كى طرف لے جائيں تا كہ وہ وہاں سے عمرہ كا احرام باندھ ليں "
متفق عليہ.
مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 32845 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
اور اگر حج يا عمرہ كرنے كى غرض سے ان ميقات سے بغير احرام كى نيت كيے ہى گزر جائے تو اسے اس ميقات پر واپس جانا لازمى ہے جہاں سے وہ گزرا تھا تا كہ وہاں سے احرام باندھ سكے، اور اگر وہ ايسا نہيں كرتا بلكہ اپنى جگہ سے ہى احرام باندھتا ہے تو جمہور علماء كرام كے ہاں اسے ايك بكرى ذبح كر كے حرم كے فقراء ميں تقسيم كرنا ہو گى.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر كوئى شخص موسم حج ميں ملازمت كے ليے مكہ جائے اور ان كى رہائش مكہ سے باہر ہو اور انہوں نے ميقات سے احرام نہ باندھا ہو تو وہ كہاں سے احرام باندھيں ؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" جب تم وہاں كام كى غرض سے گئے ہو تو حج يا عمرہ كا احرام ميقات كے اندر اپنى جگہ سے ہى باندھيں؛ كيونكہ وہ ملازمت اور كام كى نيت سے وہاں گيا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ميقات كے ذكر ميں فرمان ہے:
" اور جو كوئى ان ميقات كے اندر ہو اس كے احرام كى جگہ وہى ہے جہاں وہ رہتا ہے، حتى كہ اہل مكہ مكہ سے "
ليكن آپ ميں سے ميقات سے گزرتے وقت جو شخص حج يا عمرہ كرنے كا عزم ركھتا تھا اور اس نے ميقات سے احرام نہيں باندھا تو اسے اس ميقات پر واپس جانا چاہيے تا كہ وہ وہاں سے احرام باندھ سكے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ميقات مقرر كرتے وقت فرمايا تھا:
" يہ ميقات ان كے ليے ہيں اور جو يہاں كے رہنے والوں كے علاوہ دوسرے يہاں سے گزيں اور ان كا حج يا عمرہ كا ارادہ ہو ان كے ليے بھى ميقات ہيں " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 140 ).
اور شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
" بغير احرام ميقات تجاوز كرنے والا دو حالتوں سے خالى نہيں:
يا تو وہ اس كا ارادہ حج يا عمرہ كرنے كا ہے، تواس وقت اسے اس ميقات پر واپس جانا لازمى ہے تا كہ وہاں سے حج يا عمرہ كا احرام باندھ سكے، اور اگر وہ ايسا نہيں كرتا تو اس نے واجبات ميں سے ايك واجب ترك كيا ہے اس بنا پر اہل علم كے ہاں اس كے ذمہ فديہ اور دم لازم آتا ہے وہ ذبح كر كے مكہ كے فقراء ميں تقسيم كرے.
اور اگر اس نے ميقات تجاوز كيا تو اس كى نيت نہ تو عمرہ كرنے كى تھى اور نہ ہى حج كى تو اس حالت ميں اس پر كچھ لازم نہيں آتا " انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 21 ) سوال نمبر ( 341 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات