0 / 0

“کیش یو” کارڈ کا حکم

سوال: 70279

آج کل انٹرنیٹ کے ذریعے خریداری  کیلیے ایک پری پیڈ کارڈ متعارف کروایا گیا ہے جسے "کیش یو" کہتے ہیں، اس کا طریقہ کار یہ ہے : 

1) پہلے آپ 55 ریال میں اپنا اکاؤنٹ کھلوائیں،

2) اس کے بعد آپ مختلف قیمتوں  کے کارڈ خرید کر اپنا اکاؤنٹ ریچارج کر سکتے ہیں، مثلاً: دس ڈالر کا کارڈ آپ 42 ریال میں خریدیں گے، اسی طرح 30، 50، اور 300 ڈالر کے کارڈ بھی ہیں۔ 

3) کارڈ ایک سال تک کار آمد ہوتا ہے، ایک سال گزرنے کے بعد آپ اس کارڈ کو دوبارہ استعمال نہیں کر سکتے یہاں تک کہ آپ 10 ڈالر فیس ادا کر کے اس کی تجدید کروائیں، اس کارڈ کے متعلق آپ مزید جاننے کیلیے اس کمپنی کی ویب سائٹ www.cashu.com  کا وزٹ کر سکتے ہیں ، ہمیں اس بارے میں فتوی صادر کریں، اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

ان کارڈز کے متعلق ہمیں  یہ لگتا ہے کہ ان کارڈوں کو خریدنا  اور ان کے ذریعے خریداری کرنا جائز ہے، بس شرط یہ ہے کہ ان کارڈوں سے کوئی ایسی چیز نہ خریدی جائے جس میں فوری قبضہ میں لینے کی شرط لگائی جاتی ہے، مثلاً: مختلف کرنسیوں کا لین دین مت کریں، سونا اور چاندی ان کے ذریعے مت خریدیں؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سونے اور چاندی کی نقد خریداری کے علاوہ صورتوں کو منع قرار دیا ہے، اور نقد لین دین کے حوالے  سے مختلف کرنسیوں کا حکم سونے اور چاندی والا ہی ہے۔

چنانچہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (سونے کے بدلے سونا، چاندی کے بدلے چاندی، گندم کے بدلے گندم، جو کے بدلے جو، کھجوروں کے بدلے کھجوریں اور نمک کے بدلے نمک  کی خرید و فروخت برابر برابر ، یکساں  مقدار میں اور ہاتھوں ہاتھ  ہو گی، لیکن اگر ان چیزوں کا ایک دوسرے سے تبادلہ کروتو جیسے مرضی مقدار رکھو بشرطیکہ ہاتھوں ہاتھ خرید و فروخت ہو) مسلم: (1587)

رابطہ عالم اسلامی کے تحت فقہی اکادمی کی قرار داد میں ہے کہ:
"1- نقدی نوٹوں کی آپس میں  یا  کسی اور  ذو قیمت چیز جیسے کہ سونا یا چاندی یا  ان جیسی اور چیزوں کے عوض ادھار پر خرید و فروخت مطلقاً جائز نہیں ہے، اس لیے مثال کے طور پر سعودی ریالوں کی کسی اور کرنسی کے ساتھ فوری قبضہ کے بغیر ادھار خرید و فروخت جائز نہیں ہے۔

ب- ایک ہی کرنسی کے نوٹوں  کی آپس میں کمی بیشی کے ساتھ ادھار یا نقد ہر دو صورت میں خرید و فروخت جائز نہیں ہے، اس لیے مثال کے طور دس سعودی نوٹوں  کی گیارہ سعودی نوٹوں کے عوض ادھار یا نقد خرید و فروخت جائز نہیں۔

ج- مختلف ممالک کے کرنسی نوٹوں کی آپس میں  نقد خرید و فروخت مطلقا جائز ہے، اس لیے شامی یا لبنانی پاؤنڈ   کے عوض سعودی ریال نقد لینا یا چاندی خریدنا چاہے اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ ؛جائز ہے۔ اسی طرح ایک امریکی ڈالر کو کم و بیش تین سعودی ریال  میں نقد فروخت کرنا جائز ہے، اسی طرح چاندی کے تین سعودی ریالوں کو کم و بیش تین نوٹ والے ریالوں  کے عوض بھی نقد فروخت  کرنا جائز ہے؛ کیونکہ اس وقت جنس الگ الگ شمار ہو گی؛ لہذا نام ایک ہونے کی وجہ سے ماہیت  کے اختلاف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا" ختم شد
مجلس المجمع الفقهي لرابطة العالم الإسلامي " فتوی نمبر: (59 )

دوم:

استعمال کے بغیر کارڈ کا ختم ہو جانا اسے  جواز کے دائرے سے باہر نہیں نکال سکتا؛ کیونکہ اسے استعمال نہ کر کے اس کے مالک نے کوتاہی کی ہے، تو اس کی حالت ایسے ہی ہے جیسے کوئی گاڑی کرائے پر لے یا گھر کرایہ پر حاصل کر کے اسے کرائے کی مدت میں استعمال نہ کرے۔

واللہ اعلم.

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android