حاجى كے ليے دوسرے مسلمانوں پر عشرہ ذوالحجہ ميں كيا كچھ كرنا واجب ہے ؟
يعنى كيا قربانى كرنے سے قبل ناخن اور بال كاٹنے اور مہندى لگانى اور نيا لباس پہننا جائز نہيں ہے ؟
قربانى كا ارادہ ركھنے والے كے ليے كيا كچھ ممنوع ہے ؟
سوال: 70290
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جب ذوالحجہ كا چاند نظر آ جائے تو جو شخص قربانى كرنے كا ارادہ ركھتا ہو اس كے ليے اپنے جسم كے بال اور ناخن كاٹنے يا پھر جلد كاٹنا حرام ہے، ليكن اس كے ليے نيا لباس زيب تن كرنا اور مہندى اور خوشبو لگانا يا پھر بيوى سے جماع اور مباشرت كرنى حرام نہيں.
يہ حكم صرف اس شخص كے ليے ہے جو شخص قربانى كرنا چاہتا ہے اس كے اہل خانہ كے باقى افراد كے ليے نہيں، اور جسے قربانى كرنے كا وكيل بنايا گيا ہے اس كے ليے بھى يہ حكم نہيں ہے چنانچہ اس كى بيوى اور بچوں اور وكيل پر يہ اشياء حرام نہيں.
اس حكم ميں عورت اور مرد دونوں برابر ہيں، اس ليے اگر عورت اپنى جانب سے قربانى كرنے كا ارادہ ركھتى ہو چاہے وہ شادى شدہ ہے يہ شادى شدہ نہيں تو عمومى نصوص كى بنا پر اس كے ليے اپنے بال اور ناخن كاٹنے منع ہيں.
اور اسے احرام كا نام نہيں ديا جا سكتا؛ كيونكہ احرام تو صرف حج يا عمرہ كے ليے ہوتا ہے، اور پھر محرم شخص احرام كى چادريں زيب تن كرتا ہے اور اس كے ليے خوشبو كا استعمال اور بيوى سے جماع كرنا اور شكار كرنا جائز نہيں، ليكن قربانى كا ارادہ ركھنے والے شخص كے ليے ذوالحجہ كا چاند نظر آنے كے بعد يہ سب كچھ جائز ہے، صرف اس كے ليے بال اور ناخن كٹوانے اور اپنى جلد كاٹنى ممنوع ہے.
ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ذوالحجہ كا چاند ديكھ لو تو تم ميں سے قربانى كرنے كا ارادہ ركھنے والا شخص اپنے بال اور ناخن نہ كاٹے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1977 ).
اور ايك روايت ميں ہے كہ:
" تو وہ اپنے بال اور جلد ميں سے كچھ بھى نہ كاٹے " بشرہ انسان كى ظاہرى جلد كو كہتے ہيں.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:
" قربانى كا ارادہ ركھنے والے شخص كے ليے ذوالحجہ كا چاند نظر آنے كے بعد مشروع ہے كہ وہ قربانى كرنے تك اپنے بال اور ناخن اور اپنى جلد نہ كاٹے؛ اس كى دليل بخارى كے علاوہ باقى آئمہ حديث كى درج ذيل روايت ہے:
ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ذوالحجہ كا چاند ديكھ لو اور قربانى كرنا چاہو تو اپنے بال اور ناخن نہ كاٹو "
اور ابو داود اور نسائى كے الفاظ يہ ہيں:
" جو شخص بھى قربانى كرنا چاہے تو ذوالحجہ كا چاند نظر آنے كے بعد قربانى كرنے تك اپنے بال اور ناخن نہ كاٹے "
چاہے اس نے اپنے ہاتھ سے قربانى كرنى ہو يا كسى كو قربانى كرنے كا وكيل بنايا ہو، ليكن جس كى طرف سے قربانى كى جا رہى ہے اس كے حق ميں ايسا كرنا مشروع نہيں، مثلا بيوى بچے كيونكہ اس كے متعلق كوئى دليل نہيں، اور اسے احرام كا نام نہيں ديا جا سكتا، بلكہ محرم شخص تو وہ ہے جو حج يا عمرہ يا پھر دونوں كا احرام باندھے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 397 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال كيا گيا:
حديث ميں ہے كہ:
" جو شخص قربانى كرنا چاہے يہ اس كى جانب سے قربانى كى جائے تو وہ ذوالحجہ كا چاند نظر آنے سے ليكر قربانى كرنے تك اپنے بال اور ناخن اور اپنى جلد نہ كاٹے "
كيا يہ ممانعت سارے گھر والوں ميں چھوٹے سے ليكر بڑے تك كے ليے ہے، يا كہ صرف بڑے كے ليے ہے چھوٹے كے ليے نہيں ؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" ہمارے علم ميں نہيں كہ حديث كے الفاظ يہى ہيں جو سائل نے بيان كيے ہيں، بلكہ ہم تو يہ جانتے ہيں كہ امام بخارى رحمہ اللہ كے علاوہ باقى آئمہ نے جو حديث روايت كى ہے اس كے الفاظ درج ذيل ہيں:
ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ذوالحجہ كا چاند ديكھ لو اور تم ميں سے كوئى شخص قربانى كرنا چاہے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ كٹائے "
اور ابو داود كے الفاظ يہ ہيں ـ اور مسلم اور نسائى كے بھى يہى ہيں:
" جس شخص كے پاس قربانى كا جانور ہو اور وہ اس كى قربانى كرنا چاہتا ہو تو ذوالحجہ كا چاند نظر آنے كے بعد قربانى كرنے تك وہ اپنے بال اور ناخن اور اپنى جلد نہ كٹوائے "
چنانچہ يہ حديث قربانى كرنے والے شخص كے ليے ذوالحجہ كا چاند نظر آنے كے بعد سے ليكر قربانى كرنے تك بال اور ناخن كاٹنے كى ممانعت پر دلالت كرتى ہے.
پہلى روايت ميں امر اور ترك كا حكم ہے اور اس ميں اصل وجوب كا مقتضى ہے، اس اصل سے كسى اور معنى ميں لينا ہمارے علم ميں تو نہيں، اور دوسرى روايت ميں كاٹنے كى ممانعت ہے، اوراس كا تقاضا تحريم ہے يعنى كاٹنے كى حرمت، اس ميں بھى اس معنى كے علاوہ كوئى معنى لينے كى كوئى دليل ہمارے علم ميں تو نہيں.
تو اس سے يہ واضح ہوا كہ يہ حديث صرف اس شخص كے ليے خاص ہے جو قربانى كرنا چاہتا ہے، اور جس كى جانب سے قربانى كى جارہى ہے چاہے وہ چھوٹا ہو يا بڑا اس كے ليے اپنے ناخن اور بال كاٹنے كى كوئى ممانعت نہيں، اصل ميں اس كے ليے جائز ہے، اور اس اصل كے خلاف ہمارے علم ميں تو كوئى دليل نہيں ہے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 426 ).
دوم:
استطاعت نہ ہونے كى بنا پر جو شخص قربانى نہيں كرنا چاہتا اس كے ليے ناخن اور بال كاٹنا حرام نہيں، اور جو شخص قربانى كرنا چاہتا ہو اور وہ اپنے بال اور ناخن كاٹ لے تو اس پر كوئى فديہ لازم نہيں آتا، ليكن اس كے ليے توبہ و استغفار كرنا واجب ہے.
ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
جو شخص بھى قربانى كرنا چاہتا ہو تو اس پر فرض ہے كہ ذوالحجہ كا چاند نظر آنے كے بعد قربانى كرنے تك وہ اپنے بال اور ناخن نہ كاٹے، نہ تو ٹنڈ كرائے اور نہ ہى بال چھوٹے كروائے، اور جو شخص قربانى نہيں كرنا چاہتا اس كے ليے يہ لازم نہيں.
ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 6 / 3 ).
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
جب يہ ثابت ہو گيا تو پھر ناخن اور بال نہيں كاٹے جائينگے، اور اگر كوئى ايسا كرے تو اسے توبہ و استغفار كرنا ہوگى، بالاجماع اس پر كوئى فديہ نہيں، چاہے وہ يہ فعل عمدا كرے يا بھول كر.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 346 ).
فائدہ:
امام شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اس نہى ميں حكمت يہ ہے كہ: كامل اجزاء آگ سے آزادى كے ليے باقى رہيں، اور ايك قول يہ ہے كہ: محرم كے ساتھ تشبيہ كى بنا پر.
يہ دونوں وجہيں امام نووى نے بيان كى ہيں، اور اصحاب شافعى سے بيان كيا جاتا ہے كہ دوسرى وجہ غلط ہے؛ كيونكہ نہ تو وہ عورتوں سے عليحدہ ہوتا ہے، اور نہ ہے خوشبو اور لباس كا استعمال اس كے ليے ممنوع ہے اس كے علاوہ باقى اشياء جو حالت احرام ميں ممنوع ہيں وہ بھى ممنوع نہيں.
ديكھيں: نيل الاوطار ( 5 / 133 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات