دو نمازيں جمع كرتے وقت دو اذانوں اور دو اقامتوں كا حكم كيا ہے ؟
نمازيں جمع كرتے وقت دو اذانوں اور دو اقامتوں كا حكم كيا ہے ؟
سوال: 70298
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
نمازيں جمع كرتے وقت اذان ميں علماء كرام كا اختلاف ہے، ان اقوال ميں صحيح يہ ہے كہ دونوں نمازوں كے ليے ايك اذان اور ہر نماز كے ليے عليحدہ عليحدہ اقامت كہى جائيگى.
احناف اور حنابلہ كا قول يہى ہے، اور شافعيہ كے ہاں يہى معتبر ہے، اور بعض مالكى بھى اسى كے قائل ہيں.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 2 / 370 ).
اس كى دليل حجۃ الوداع كے موقع پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فعل ہے جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ميدان عرفات ميں ظہر اور عصر كى نماز جمع تقديم كر كے ادا كى تو ايك اذان اور دواقامتيں ہوئيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مزدلفہ ميں مغرب اور عشاء كى نمازيں جمع تاخير كر كے ادا كى تو بھى ايك اذان اور دو اقامتيں كہي گئيں.
جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حج كو بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" پھر اذان كہى گئى اور اقامت ہوئى چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ظہر كى نماز ادا كى پھر اقامت ہوئى اور عصر كى نماز ادا كى اور ان دونوں نمازوں كے مابين كوئى اور نماز ادا نہيں كى …
حتى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم مزدلفہ تشريف لے آئے تو وہاں پہنچ كر ايك اذان اور دو اقامتوں كے ساتھ نماز مغرب اور عشاء ادا كى "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1218 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
بعض فقھاء كا كہنا ہے كہ: بارش ميں مغرب اور عشاء كى نمازيں دو اذانوں كے ساتھ جمع كى جائينگى، اس كا حكم كيا ہے ؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" اگر كوئى ايسا سبب پايا جائے جس كى بنا پر نمازيں جمع كرنا جائز ہو مثلا سفر اور بيمارى اور حضر ميں بارش تو مغرب اور عشاء كى نماز ايك اذان اور دو اقامتوں كے ساتھ جمع كى جاسكتى ہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فعل كى بنا پر صحيح اور صريح احاديث اسى پر دلالت كرتى ہيں " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 142 ).
اور شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اگر انسان نمازيں جمع كرے تو پہلى نماز كے ليے اذان كہے اور ہر فرض نماز كے ليے عليحدہ اقامت كہے، يہ اس وقت ہے جب شہر ميں نہ ہو، ليكن اگر وہ شہر ميں ہو تو پھر شہر كى اذان ہى كافى ہو گى؛ تو اس وقت ہر فرضى نماز كے ليے اقامت كہے.
اس كى دليل يہ صحيح مسلم كى درج ذيل حديث ہے:
جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميدان عرفات ميں اذان كہى گئى اور پھر اقامت ہوئى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ظہر كى نماز پڑھائى، پھر اقامت كہى گئى تو عصر كى نماز پڑھائى، اور اسى طرح مزدلفہ ميں بھى اذان اور اقامت ہوئى تو مغرب كى نماز پڑھائى اور پھر اقامت ہوئى تو عشاء كى نماز پڑھائى " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 2 / 78 – 79 ).
اور رہا اذان اور اقامت كے حكم كا مسئلہ تو اس كے متعلق گزارش ہے كہ: يہ دونوں فرض كفايہ ہيں، چنانچہ جماعت كے ليے كافى ہے كہ ان ميں سے ايك شخص اذان اور اقامت كہے، اور جماعت ميں سے ہر ايك شخص سے اذان اور اقامت كہنى مطلوب نہيں، شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كى كلام ذكر كى جا چكى ہے كہ اگر شہر كى مساجد ميں مؤذن اذان دے چكے ہوں تو يہى كافى ہى اور وہ ہر نماز كے ليے اقامت كہيں گے.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" ان دونوں ـ يعنى اذان اور اقامت ـ كى فرضيت كى دليل كئى ايك احاديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم، اور حضر اور سفر ميں اس كا التزام ہے؛ اور اس ليے بھى كہ غالبا نماز كے وقت كا علم ان دونوں كے ساتھ ہى ہوتا ہے، اور مصلحت بھى انہى كے ساتھ متعين ہوتى ہے؛ كيونكہ يہ اسلام كے ظاہرى شعائر ميں سے ہيں…
اور يہ دونوں مسافر اور مقيم حضرات پر واجب ہيں، اس كى دليل يہ ہے كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مالك بن حويرث رضى اللہ تعالى عنہ كو فرمايا تھا:
" جب نماز كا وقت ہو تو تم ميں كوئى ايك اذان كہے "
متفق عليہ.
يہ لوگ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس وفد بن كر آئے تھے اور اپنے علاقے اور اہل وعيال كے پاس سفر كے كے جانے والے تھے، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں حكم ديا كہ ان كے ليے ان ميں سے كوئى ايك شخص اذان كہے؛ اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نہ تو سفر اور نہ ہى حضر ميں اذان چھوڑى، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سفر ميں اذان ہوتى اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم بلال رضى اللہ تعالى عنہ كو اذان دينے كا حكم ديا كرتے تھے.
چنانچہ صحيح يہ ہے كہ:
مقيم اور مسافر حضرات پر اذان واجب ہے…. لہذا نماز پنجگانہ كے ليے ہر ايك نماز كے وقت اذان كہى جائيگى، ليكن اگر نمازيں جمع كرنى ہوں تو پھر دو نمازوں كے ليے ايك اذان كافى ہے، ليكن اقامت ہر نماز كے ليے عليحدہ ہو گى.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 2 / 42 – 46 ) اختصار اور كچھ كمى و بيشى كے ساتھ نقل كيا گيا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب