اسلام ميں غيلہ كا حكم كيا ہے ؟
اسلام ميں غيلہ كا حكم
سوال: 70350
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
غيلہ: كے متعلق ايك قول يہ ہے كہ:
دودھ پلانے والى عورت كے ساتھ ہم بسترى كرنا غيلہ ہے.
اور ايك قول يہ بھى ہے:
حاملہ عورت كا اپنے بچوں كو دودھ پلانا غيلہ كہلاتا ہے.
صحيح مسلم ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” ميں نے غيلہ سے منع كرنے كا ارادہ كيا، ليكن مجھے بتايا گيا كہ روم اور فارس ايسا كرتے ہيں تو ان كى اولاد كو كوئى نقصان اور ضرر نہيں ہوتا ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1442 ).
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اس حديث ميں غيلہ سے مراد ميں علماء كا اختلاف ہے:
امام مالك رحمہ اللہ موطا ميں اور اہل لغت اصمعى وغيرہ كہتے ہيں:
خاوند دودھ پلانے كى مدت كےدوران بيوى سے مجامعت كرے تو يہ غيلہ ہے.
اور ابن السكيت كہتے ہيں:
” عورت حمل كى حالت ميں بچے كو دودھ پلائے تو يہ غيلہ كہلاتا ہے ”
علماء كا كہنا ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اس سے منع كرنے كا سوچنا اور ارادہ كرنا اس بنا پر تھا كہ انہيں خدشہ تھا كہ اس سے دودھ پيتے بچے كو نقصان اور ضرر ہوتا ہے.
ان كا كہا ہے: اطباء كہتے ہيں: يہ دودھ بيمارى ہے، اور عرب اسے ناپسند اور مكروہ سمجھتے ہيں اور اس سے اجتناب كرتے ہيں.
اور حديث ميں غيلہ كا جواز پايا جاتا ہے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے منع نہيں فرمايا، اور منع نہ كرنے كا سبب بھى بتايا ہے ”
ديكھيں: شرح مسلم نووى ( 10 / 17 – 18 ).
اور امام مسلم رحمہ اللہ نے سعد بن ابى وقاص رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ ايك شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كى:
” ميں اپنى عورت سے عزل كرتا ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تم ايسا كيوں كرتے ہو ؟
تو وہ شخص كہنے لگا:
ميں اس كے بچے پر شفقت كرتا ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” اگر يہ نقصاندہ ہوتا اور اس ميں ضرر پايا جاتا تو فارس اور روميوں كو نقصان ديتا ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1443 ).
اس اباحت كى مخالفت ميں كوئى حديث وارد نہيں صرف ايك ضعيف حديث آتى ہے جسے ابو داود اور ابن ماجہ نے اسماء بنت يزيد رضى اللہ عنہا سے روايت كيا ہے جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے غيلہ كى نہى آئى ہے.
سنن ابو داود حديث نمبر ( 3881 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2012 ) اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے ضعيف سنن ابو داود ميں ضعيف قرار ديا ہے.
اور ابن قيم رحمہ اللہ نے ” تھذيب السنن ” ميں اباحت پر دلالت كرنے والى احاديث ذكر كرنے كے بعد كہا ہے:
” اور يہ احاديث اسماء بنت يزيد والى احاديث سے زيادہ صحيح ہيں، اور اگر اس كى حديث صحيح بھى ہو تو اسے ارشاد و افضليت پر محمول كيا جائيگا نہ كہ حرمت پر ” انتہى
اور زاد المعاد ميں كہتے ہيں:
” اس ميں كوئى شك نہيں كہ دودھ پلاتى عورتوں سے مجامعت كرنا عام ہے، اور مرد كا رضاعت كى مدت ميں بيوى كے پاس نہ جانے سے صبر كرنا مشكل ہے، اور اگر ان كے ساتھ مجامعت كرنا حرام ہوتا تو يہ دين ميں معلوم ہوتا، اور اس كا بيان اہم امور ميں شامل ہوتا، اور امت اس ميں غفلت نہ كرتى اور نہ ہى خير القرون.
اور كسى نے بھى اس كى حرمت كى صراحت نہيں كى، اس سے يہ معلوم ہوا كہ اسماء والى حديث بچے كے ليے راہنمائى اور احتياط كے اعتبار سے ہے، اور اس صورت ميں ہونے والے حمل كى بنا پر اس كا دودھ خراب نہ ہو جائے ” انتہى
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 147 – 148 ).
حاصل يہ ہوا كہ:
غيلہ نہ تو حرام ہے اور نہ ہى مكروہ، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كى ممانعت ثابت نہيں ہے، اور جو كوئى بچے كے ليے احتياط كرتا ہوا اسے چھوڑتا ہے تو اس پر كوئى حرج نہيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب