اگر خاوند اپنى بيوى كو موبائل پر طلاق كا ميسج كرے جس ميں اس نے كہا ہو " تجھے طلاق " تو كيا وہ مطلقہ شمار ہو گى چاہے يہ ميسج بطور مذاق ہو يا حقيقى ؟
مذاق ميں بيوى كو موبائل پر طلاق كا ميسج كر ديا
سوال: 70460
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
صرف نيت سے ہى بيوى كو طلاق نہيں ہو جاتى، اس ليے جب كوئى شخص اپنى نيت كو زبان پر ظاہر كرتے ہوئے الفاظ بولے ـ يا پھر گونگے كے ليے قابل فہم اشارہ ـ يا لكھ دے چاہے وہ كاغذ پر لكھے يا موبائل ميسج پر يا اى ميل كے ذريعہ تو اس سے طلاق واقع ہو جائيگى، ليكن شرط يہ ہے كہ يہ لكھائى اس كى جانب سے ثابت ہو جائے؛ كيونكہ اس طرح كے معاملات ميں جعلى سازى بہت آسان اور ميسر ہے.
مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 36761 ) اور ( 20660 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
حقيقى طور پر طلاق ميں تو علماء كرام كے ہاں كوئى اختلاف نہيں ہے.
ليكن بطور مذاق طلاق ميں اختلاف ہے، اگر وہ صريح الفاظ ميں طلاق دے مثلا " تجھے طلاق " اور يہ الفاظ ميں ہو لكھ كر نہيں، تو جمہور علماء كرام كہتے ہيں كہ يہ طلاق واقع ہو جائيگى، انہوں نے درج ذيل حديث سے استدلال كيا ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تين اشياء كى حقيقت بھى حقيقت ہے اور ان كا مذاق بھى حقيقت ہے " نكاح اور طلاق اور رجوع "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2194 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1184 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2039 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغيل حديث نمبر ( 1826 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 44038 ) كے جواب كا بھى مطالعہ كريں.
سوم:
رہا مسئلہ كنايہ كے الفاظ ميں طلاق دينے كا چاہے يہ كاغذ پر لكھائى ہو يا موبائل ميسج يا پھر اى ميل ميں تو يہ طلاق اس وقت تك واقع نہيں ہوتى جب تك طلاق كى نيت نہ كى جائے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص نے اپنى بيوى كو كاغذ پر طلاق لكھ كر دے دى تو كيا طلاق ہو جائيگى ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" يہ طلاق مذكورہ عورت پر اس وقت تك واقع نہيں ہو گى جب تك وہ اسے طلاق دينے كى نيت نہ كرے، صرف لكھنے يا پھر طلاق كے علاوہ كچھ اور ارادہ كرنے سے طلاق نہيں ہوگى كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے…. " الحديث.
اہل علم كى ايك جماعت كا قول يہى ہے، اور بعض نے اسے جمہور كا قول بيان كيا ہے، كيونكہ كتابت و لكھائى كنايہ كے معنى ميں ہے، اور كنايہ سے طلاق اس وقت ہى ہوتى ہے جب طلاق كى نيت كى گئى ہو، علماء كا صحيح قول يہى ہے.
ليكن اگر كتابت و لكھائى كے ساتھ كوئى ايسا قرينہ پايا جائے جو طلاق واقع كرنے كے مقصد پر دلالت كرے تو اس سے طلاق واقع ہو جائيگى " انتہى
مزيد آپ سوال نمبر ( 72291 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اس بنا پر اگر آپ كے خاوند كا اس موبائل ميسج سے طلاق دينے كا ارادہ تھا تو طلاق ہو گئى، ليكن اگر وہ مذاق كر رہا تھا ـ جيسا كہ آپ كہہ رہى ہيں ـ اور اس كا طلاق دينے كا ارادہ و مقصد نہ تھا تو پھر طلاق واقع نہيں ہوئى.
خاوندوں كو ہمارى نصيحت ہے كہ وہ اللہ كا ڈر اور تقوى اختيار كريں اور اللہ كے احكام كو كھيل و مذاق مت بنائيں، اور انہيں يہ جان لينا چاہيے كہ طلاق سے خاندان تباہ ہو جاتا ہے اور گھر كا شيرازہ بكھر جاتا ہے، اور اولاد ضائع ہو جاتى ہے، اور اس كى بيوى ذلت و فتنوں ميں پڑ جاتى ہے.
اس ليے اللہ سے ڈرو اور تقوى اختيار كرتے ہوئے اپنے خاندان اور گھروں كى حفاظت كرو، اور صبر و تحمل اور حلم و بردبارى سے كام ليتے ہوئے طلاق سے قبل سوچ ليا كرو.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات