كيا ميں شديد سردى كے ايام ميں جنابت سے تيمم كر كے نماز ادا كر سكتا ہوں، يہ علم ميں ركھيں كہ فورى طور پر طہارت كے امكانات متوفر نہيں جيسا كہ سردى ميں مجھے كمر كى تكليف بھى زيادہ ہوتى ہے اور اس كا اثر زيادہ ہوتا ہے ؟
كيا شديد سردى ميں جنابت سے تيمم كيا جا سكتا ہے ؟
سوال: 70507
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جنبى شخص كے ليے نماز ادا كرنے سے قبل غسل كرنا واجب ہے؛ كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر تم جنابت كى حالت ميں ہو تو پاكيزگى اور طہارت اختيار كرو.
اور اگر پانى كى غير موجودگى، يا پھر كسى عذر يعنى پانى استعمال كرنے ميں بيمارى كو ضرر ہو، يا پھر شديد سردى ميں پانى استعمال كرنے سے بيمارى ميں اور اضافہ ہونے كا خدشہ ہو، يا پانى گرم كرنے كے ليے كوئى چيز نہ ہو ـ كى بنا پر پانى استعمال كرنے سے عاجز ہو تو غسل كى جگہ تيمم كر سكتا ہے؛ كيونكہ فرمان بارى تعالى ہے:
اور اگر تم مريض ہو يا مسافر يا تم ميں سے كوئى ايك قضائے حاجت سے فارغ ہوا ہو، يا پھر تم نے بيوى سے جماع كيا ہو اور تمہيں پانى نہ ملے تو پاكيزہ اور طاہر مٹى سے تيمم كر لو .
اس آيت ميں دليل ہے كہ جو مريض شخص پانى استعمال نہ كرسكتا ہو يا پھر اسے غسل كرنے سے موت كا خدشہ ہو، يا مرض زيادہ ہونے كا، يا پھر مرض سے شفايابى ميں تاخير ہونے كا تو وہ تيمم كر لے.
اللہ سبحانہ وتعالى نے تيمم كى كيفيت بيان كرتے ہوئے فرمايا:
تو تم اپنے چہروں اور ہاتھوں كا اس مٹى سے مسح كرو .
اس تشريع كا حكم بيان كرتے ہوئے فرمايا:
اللہ تعالى تم پر كوئى تنگى نہيں كرنا چاہتا، ليكن تمہيں پاك كرنا چاہتا ہے، اور تم پر اپنى نعمتيں مكمل كرنا چاہتا ہے تا كہ تم شكر ادا كرو المآئدۃ ( 6 ).
اور عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" غزوہ ذات سلاسل ميں شديد سرد رات ميں مجھے احتلام ہوگيا اس ليے مجھے يہ خدشہ پيدا ہوا كہ اگر ميں نے غسل كيا تو ہلاك ہو جاؤں گا اس ليے ميں نے تيمم كر كے اپنے ساتھيوں كو فجر كى نماز پڑھا دى، چنانچہ انہوں نے اس واقعہ كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے ذكر كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" اے عمرو كيا آپ نے جنابت كى حالت ميں ہى اپنے ساتھيوں كو نماز پڑھائى تھى ؟
چنانچہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو غسل ميں مانع چيز كا بتايا اور كہنے لگا كہ ميں نے اللہ تعالى كا فرمان سنا ہے:
اور تم اپنى جانوں كو ہلاك نہ كرو، يقينا اللہ تعالى تم پر رحم كرنے والا ہے النساء ( 29 ).
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مسكرانے لگے اور كچھ بھى نہ فرمايا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 334 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس حديث ميں اس كا جواز پايا جاتا ہے كہ سردى وغيرہ كى بنا پر اگر پانى استعمال كرنے سے ہلاكت كا خدشہ ہو تو تميم كيا جا سكتا ہے، اور اسى طرح تيمم كرنے والا شخص وضوء كرنے والوں كى امامت بھى كروا سكتا ہے.
ديكھيں: فتح البارى ( 1 / 454 ).
اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر تو آپ گرم پانى حاصل كرسكيں، يا پھر پانى گرم كر سكتے ہوں يا پھر اپنے پڑوسيوں وغيرہ سے گرم پانى خريد سكتے ہوں تو آپ كے ليے ايسا كرنا واجب ہے؛ كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اپنى استطاعت كے مطابق اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو .
اس ليے آپ اپنى استطاعت كے مطابق عمل كريں، يا تو پانى گرم كر ليں يا پھر كسى سے خريد ليں، يا پھر اس كے علاوہ كوئى اور طريقہ جس سے آپ پانى كے ساتھ شرعى وضوء كر سكيں.
ليكن اگر آپ ايسا كرنے سے عاجز ہوں، اور شديد سردى كا موسم ہو اور اس ميں آپ كو خطرہ ہو، اور نہ ہى پانى گرم كرنے كى كوئى سبيل ہو اور نہ ہى اپنے ارد گرد سے گرم پانى خريد سكتے ہوں تو آپ معذور ہوں، بلكہ آپ كے ليے تيمم كرنا ہى كافى ہے؛ كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اپنى استطاعت كے مطابق اللہ كا تقوى اختيار كرو .
اور ايك مقام پر فرمان بارى تعالى ہے:
چنانچہ اگر تمہيں پانى نہ ملے تو تم پاكيزہ مٹى سے تيمم كرو اور اپنے چہروں اور ہاتھ پر مٹى سے مسح كرو .
اور پانى استعمال كرنے سے عاجز شخص كا حكم بھى پانى نہ ملنے والے شخص كا ہى ہے.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 10 / 199 – 200 ).
آپ كو چاہيے كہ جتنے جسم كا آپ غسل كر سكتے ہيں اس كا غسل كر ليں، مثلا اگر آپ كے ليے كسى ضرر كا انديشہ نہ ہو تو بازوں اور ٹانگيں وغيرہ جو كچھ دھو سكتے ہيں وہ دھو ليں، اور پھر تيمم كر ليں.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ آپ جو جلد از جلد شفاياب كرے، اور آپ كى بيمارى كو آپ كے گناہوں كا كفارہ اور درجات كى بلندى كا سبب بنائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب