عورت جس كا نصف جسم مفلوج ہے اس كے ليے وضوء كرنا مشكل ہے، سوال يہ ہے كہ:
وہ وضوء يا تيمم كيسے كرے ؟
كيا اس كے ليے مٹى لائى جائے يا كيا كيا جائے ؟
كيا وہ ديوار ( جس پر غبار نہ ہو ) سے تيمم كرے يا كچھ اور ؟
اس كے تيمم كا طريقہ كيا ہو گا ؟
اور وہ نماز كيسے ادا كرے گى ؟
نصف جسم مفلوج والا شخص وضوء كس طرح اور نماز كيسے ادا كرے گا ؟
سوال: 71202
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
جو مريض پانى لانے اور وضوء كرنے كى استطاعت نہ ركھتا ہو، يا پھر حركت كرنے سے قاصر ہو تو اس كى حالت كو ديكھا جائےگا:
اگر تو اس كے ليے نماز كے وقت پانى لانے والا شخص موجود ہو اور اسے وضوء كرانے ميں تعاون كرے تو اس كے حق ميں وضوء كرنا واجب ہے.
اور اگر اس پانى لا كر دينے والا اور وضوء ميں معاونت كرنے والا كوئى نہ ہو تو اس وقت اس مريض كے ليے تيمم كرنا مشروع ہے، اور يہ مريض پانى نہ پانے اور پانى كى عدم موجودگى كا حكم پائے گا.
اس ليے كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
جہاں تك ہو سكے اللہ تعالى كا ڈر اور تقوى اختيار كرو التغابن ( 16 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جب ميں تمہيں كوئى حكم دوں تو حسب استطاعت اس پر عمل كرو”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 7288 ) صحيح مسلم حديث نمبر (1337 )
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى ” المغنى ” ميں كہتے ہيں:
” جو مريض حركت كرنے كى استطاعت نہ ركھتا ہو اور اسے پانى لا كر دينے والا بھى كوئى نہ ہو تو وہ پانى نہ پانے والا كى طرح ہى ہے، كيونكہ وہ پانى تك پہنچ ہى نہيں سكتا، چنانچہ يہ اس شخص كے مشابہ ہوا جو شخص كنواں تو پائے ليكن اس سے پانى نكالنے كے ليے كوئى چيز نہ ہو.
اور اگر وہ نماز كا وقت نكلنے سے قبل پانى لانے والا شخص پا لے تو وہ پانى پانے والے كى طرح ہے؛ كيونكہ وہ اس شخص كى طرح ہے جو وقت كے اندر پانى نكالنے والى چيز پا لے.
اور اگر اس كے آنے سے قبل اسے نماز كا وقت نكلنے كا خدشہ ہو تو ابن ابى موسى كا كہنا ہے:
وہ تيمم كرے، اور اس پر نماز كا اعادہ نہيں ہے.
اور يہ بہتر قول ہے؛ كيونكہ وہ وقت كے اندر پانى نہيں پا سكا، چنانچہ مطلق طور پر پانى نہ پانے والے كى طرح ہوا ” انتہى
ديكھيں: المغنى ( 1 / 151 ).
اور مرداوى رحمہ اللہ تعالى ” الانصاف ” ميں رقمطراز ہيں:
” اگر مريض حركت كرنے سے قاصر ہو اور اسے وضوء كرانے والا بھى كوئى نہيں ہو تو اس كا حكم پانى نہ ملنے والے شخص كا ہو گا.
اور اگر وضوء كرانے والے كا انتظار كرنے ميں نماز كا وقت نكل جانے كا خدشہ ہو تو تيمم كر كے نماز ادا كر لے، اور صحيح مذہب يہى ہے كہ وہ نماز دوبارہ نہيں لوٹائے گا ” انتہى
ديكھيں: الانصاف ( 1 / 265 ).
اور ” شرح العمدۃ ” ميں شيخ الاسلام كہتے ہيں:
” اگر اس كے ليے پانى استعمال كرنا ممكن نہ ہو يعنى وہ حركت كرنے سے عاجز ہو اور اسے پانى دينے والا شخص بھى نہ ہو تو وہ پانى نہ ملنے والے كى طرح ہى ہے، اور اگر اسے پانى دينے والا شخص ہو تو وہ وقت ميں پانى حاصل كرنے والا ہے ”
ديكھيں: شرح العمدۃ ( 1 / 433 – 434 ).
اور ” الموسوعۃ الفقھيۃ ” ميں بيان كيا گيا ہے كہ:
” وہ عاجز شخص جو پانى استعمال كرنے كى قدرت نہ ركھتا ہو تيمم كر كے نماز ادا كرے گا، اور مكرہ اور محبوس اور پانى كے قريب بندھے ہوئے، اور سفر اور حضر ميں كسى درندہ اور حيوان يا انسان سے خائف شخص كى طرح نماز نہيں لوٹائےگا، كيونكہ وہ وہ حكما پانى كے عدم حصول ميں داخل ہوتا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” بلا شبہ مٹى مسلمان كے ليے طہارت كا باعث ہے، چاہے اسے بيس برس تك بھى پانى نہ ملے، چنانچہ جب اسے پانى ملے تو وہ اسے اپنے جسم پر استعمال كرے، كيونكہ يہ بہتر ہے ” انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 14 / 260 ).
آپ مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر (20935 ) كے جواب كا بھى ضرور مطالعہ كريں.
دوم:
اگر وہ وضوء كے بعض اعضاء دھو سكتا ہو، اور باقى اعضاء كے دھونے ميں بيمارى مانع ہو، تو اس كے ليے حسب استطاعت وضوء كے اعضاء دھونے ضرورى ہيں، اور جو رہ گئے ہيں اس كے بدلے ميں تيمم كر لے”
سوال نمبر (67614 ) كے جواب ميں اس كا بيان ہو چكا ہے.
سوم:
تيمم كرنے كا طريقہ درج ذيل ہے:
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى ” الشرح الممتع ” ميں لكھتے ہيں:
” ميرے نزديك سنت كے مطابق تيمم كا طريقہ يہ ہے كہ: آپ اپنے دونوں ہاتھ بغير كھلى ہوئى انگلياں زمين پر مار كر اپنے چہرے اور دونوں ہتھيليوں پھير ليں، تو اس طرح تيمم مكمل ہو جائيگا ” انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 488 ).
اس كى تفصيل سوال نمبر (21074 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے.
چہارم:
جب پانى استعمال كرنے سے عاجز مريض تيمم كر كے نماز ادا كرے اور نماز سے فراغت كے بعد پانى كے استعمال ميں آسانى ہو جائے تواس كے ليے نماز لوٹانى لازم نہيں ہو گى، كيونكہ اس نے اپنے ذمہ واجب كى ادائيگى كر لى ہے، اور جس فعل كا اسے حكم تھا وہ سرانجام دے چكا ہے.
شيخ الاسلام ” شرح العمدۃ ” ميں لكھتے ہيں:
” كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے اسے ايك نماز كى ادائيگى كا كہا ہے جسے وہ حسب الامكان ادا كرے گا، اور جس چيز سے عاجز ہو وہ عاجز ہونے كى بنا پر ساقط ہو جائيگى.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” پاكيزہ مٹى مسلمان شخص كے ليے طہارت و پاكيزگى ہے ”
اور فرمان نبوى ہے:
” آپ كو مٹى كافى تھى ”
يہ اس بات كى دليل ہے كہ مٹى پانى كے مطلقا قائم مقام ہے ” انتہى
ديكھيں: شرح العمدۃ ( 1 / 425 ).
پنجم:
گھر كى ديوار پر ہاتھ مار كر تيمم كرنے ميں علماء كرام كا اختلاف ہے، اس كى وجہ درج ذيل فرمان بارى تعالى كى مراد ميں علماء كا اختلاف ہے:
چنانچہ تم پاكيزہ مٹى سے تيمم كرو النساء ( 43 ).
اس آيت كى صحيح تفسير اور معنى يہ ہے كہ: اس سے وہ مٹى مراد ہے جو زمين پر ہو ، چاہے وہ مٹى ہو يا ريت يا پتھر وغيرہ .
اس بنا پر اگر ديوار پر كسى چيز روغن وغيرہ كا ليپ نہ ہو تو اس ديوار پر تيمم كرنا جائز ہے، چاہے اس پر غبار ہو يا نہ، كيونكہ وہ ديوار مٹى كى ہے، اور اگر اس پر ليپ ( لكڑى يا پينٹ ) كيا گيا تو يہ لكڑى يا پھر پينٹ ہے جو مٹى كى جنس سے نہيں چنانچہ اس سے تيمم جائز نہيں ہو گا.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر (36774 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
ششم:
رہا مسئلہ حركت سے عاجز مريض كى نماز كا تو اس كے متعلق ” الموسوعۃ الفقھيۃ ميں يہ بيان ہوا ہے:
” جمہور علماء كرام كے ہاں مريض يا فالج زدہ شخص نماز اس طرح ادا كرے گا جس طرح اس ميں استطاعت ہو، كيونكہ كسى فعل سے عاجز شخص كو اس فعل كا مكلف نہيں كيا جائيگا، چنانچہ جب كھڑا ہونے سے عاجز ہو تو بيٹھ كر ركوع اور سجود كر كے نماز ادا كرے گا، اور اگر اس سے بھى عاجز ہو تو بيٹھ كر اشارہ كے ساتھ نماز ادا كرے، اور سجدہ كے ليے ركوع سے كچھ زيادہ جھكے گا، اور اگر وہ بيٹھنے سے بھى عاجز ہو تو ليٹ كر اشارہ كر لے، كيونكہ عذر كى بنا پر ركن ساقط ہوا ہے، چنانچہ عذر كے مطابق ہى كيا جائيگا.
عمران بن حصين رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں بيمار ہوا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميرى عيادت كے ليے تشريف لائے اور فرمايا:
” كھڑے ہو كر نماز ادا كرو، اگر كھڑے ہو كر نماز ادا كرنے كى استطاعت نہيں تو ليٹ كر اشارہ كے ساتھ نماز ادا كر لو ” انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 26 / 208 ).
شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
” ميرے والد صاحب كو بائيں جانب فالج ہے جس كى وجہ سے وہ حركت نہيں كر سكتے، اس بنا پر وہ نہ تو چل سكتے ہيں، اور نہ ہى خود بيت الخلاء جا سكتے ہيں، تقريبا دس برس سے ان كى حالت يہى ہے، ليكن تين يا چار ماہ سے اس مرض ميں شدت پيدا ہو چكى ہے، لہذا كيا وہ اس بنا پر نماز ترك كر سكتے ہيں، كيونكہ وہ نماز كے ليے طہارت نہيں كر سكتے ؟
اور اگر ان كے ليے ايسا كرنا جائز نہيں تو پھر طہارت اور نماز كے ليے انہيں كيا كرنا ہو گا ؟
اور اس حالت ميں نماز معاف ہونے كے اعتقاد كى بنا پر بيمارى ميں جو نمازيں انہوں نے ادا نہيں كيں اس كا كيا جائے ؟
شيخ كا جواب تھا:
” مسلمان شخص جب تك عقل مند رہے اس سے نماز ساقط نہيں ہوتى ليكن وہ اپنى حالت كے مطابق نماز ادا كرے گا:
كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
حسب استطاعت اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرو .
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” نماز كھڑے ہو كر ادا كرو، اور اگر كھڑے ہونے كى طاقت نہيں تو پھر بيٹھ كر اور اگر اس كى بھى آپ ميں استطاعت نہيں تو پھر پہلو كے بل ليٹ كر ”
چنانچہ آپ كے والد جنہيں فالج كى بيمارى ہے اگر وہ اپنے صحيح ہاتھ سے خود وضوء كر سكتے ہيں تو وضوء كريں وگرنہ كوئى اور شخص انہيں وضوء كرائے كيونكہ اس پر يہ واجب ہے.
اور اگر وہ پانى سے وضوء نہيں كر سكتے تو پھر تيمم كريں.
اور اگر خود تيمم نہيں كر سكتے تو كوئى دوسرا شخص انہيں تيمم كرائے كہ ان كے گھروالوں يا اس كے پاس كوئى بھى موجو د شخص اپنے دونوں ہاتھ مٹى پر مار كر طہارت كى غرض سے مريض كے چہرے اور اس كے ہاتھ پر پھيرے، اور وہ اپنى حالت كے مطابق بيٹھ كر يا پہلو كے بل ليٹ كر ركوع اور سجدہ كے ليے حسب استطاعت سر كے ساتھ اشارہ كر كے نماز ادا كريں.
اگر وہ فالج كى بنا پر سر سے اشارہ نہيں كرسكتے تو پھر سجدہ اور ركوع ميں آنكھ سے اشارہ كر كے نماز ادا كر ليں.
الحمد دين ميں آسانى اور سہولت ہے، ليكن اس كا يہ معنى نہيں كہ نماز بالكل ادا ہى نہ كى جائے، بلكہ جيسا ہم بيان كر چكے ہيں كہ وہ اپنى حالت كے مطابق نماز ادا كرے، اور جو نمازيں نے ادا نہيں كيں بقدر استطاعت انہيں ادا كرے” انتہى
ديكھيں: المنتقى من فتاوى الفوزان ( 4 ) نمبر ( 27 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات