0 / 0

محبت و عشق والے قصے اور رومانٹك فلميں ديكھنے كا حكم

سوال: 72204

ميرا بہترين مشغلہ رومانٹك ڈائجسٹ اور ناول پڑھنا ہے، جن ميں بعض اوقات ہيرو اور ہيروئن كے جنسى تعلقات اور مشاہد كو تفصيلا بيان كيا گيا ہوتا ہے، يہ علم ميں رہے كہ ميں نماز بھى ادا كرتى ہوں، اور پردہ بھى كرتى ہوں، اور بہت زيادہ اللہ كا تقوى اور ڈر بھى ركھتى ہوں، اور ميرا كسى بھى نوجوان سے كوئى تعلق نہيں ہے، ليكن ميں ايك رومانسى لڑكى ہوں، اور موسيقى سننا، ار رومانٹك افلام ديكھنا پسند كرتى ہوں، ليكن مجھے جو چيز پريشان كرتى ہے وہ يہ ناول ہى ہيں.

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

عشق و محبت كے قصے اور ناول پڑھنے كے بہت سے نقصانات ہيں خاص كر جب انہيں پڑھنے والا نوجوان لڑكا يا لڑكى ہو، اور وہ نقصانات يہ ہيں:

ايسے ناول اور قصوں سے شہوت انگيزى، ہيجان پيدا ہوتا ہے، اور گندے اور ردى قسم كے خيالات كو مہيز ملتى ہے، اور دل اس ناول اور قصہ ميں بيان كردہ ہيرو يا اس كے مقابلہ ميں ہيروئن كے ساتھ دلى تعلق پيدا ہوتا ہے، اور وقت وہاں صرف كيا جاتا ہے جس ميں نہ تو دنياوى فائدہ ہے اور نہ ہى دينى فائدہ، بلكہ غالبا اس ميں نقصان ہى ہوتا ہے.

اور شريعت اسلاميہ نے حرام كام كى طرف لے جانے والے وسائل اور دروازوں كو بھى بند كرتے ہوئے حكم ديا ہے كہ:

آنكھيں نيچى ركھى جائيں، اور عورت كے ساتھ خلوت سے بھى منع كيا ہے، اور اسى طرح عورت كا بات چيت ميں نرمى اختيار كرنا بھى منع ہے، جس سے مرد ميں ہيجان اور شہوت پيدا ہو، اور وہ اسے فحاشى پر آمادہ كرے.

اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ اس طرح كے قصے اور ناول پڑھنا شريعت كے بالكل مخالف ہے، كيونكہ اس ميں مردوں سے تعلق قائم كرنے اور ان كى تصاوير اور اشكال اور لڑكيوں سے ان كے انداز مخاطب كى نقالى پيدا ہوتى ہے، اس پر مستزاد يہ كہ عشق و محبت كى فاحشہ قسم كى اقسام اور حرام ملاقات پيش كى جاتى ہيں، اور جو چيز بھى اس طرح كى ہو اس كے حرام ہونے ميں كوئى شك و شبہ نہيں.

دوم:

موسيقى سننا حرام ہے، كيونكہ اس كى حرمت كے كئى ايك دلائل احاديث ميں ملتے ہيں، ان دلائل كو ہم نے تفصيلا سوال نمبر ( 5000 ) اور ( 20406 ) كے جوابات ميں بيان كيا ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.

سوم:

رومانٹك فلميں ديكھنے كے متعلق بھى وہى كلام كى جاتى ہے جو رومانٹك ناول پڑھنے ميں، بلكہ فلميں تو اس سے بھى زيادہ نقصان دہ ہيں، اور اس ميں خرابى زيادہ ہے، كيونكہ اس ميں تو ان معانى كو جسمانى شكل اور حركات و مختلف صور ميں سكرين پر پيش كيا جاتا ہے، اور فلم بين اس كا اپنى آنكھوں سے مشاہدہ كرتے ہيں، اور اس ليے بھى كہ اس ميں ستر پوشى نہيں ہوتى بلكہ عورتوں كا ستر ديكھا جاتا ہے، اور فجور كا مطالعہ ہوتا ہے اور پھر اس پر مستزاد يہ كہ اس ميں اس قسم كى موسيقى ہوتى ہے جو شہوت ميں ہيجان پيدا كرتى ہے، اور فحاشى كى دعوت ديتى ہے، جو كسى عقل مند پر مخفى نہيں، تو يہ بہت ہى تعجب والى بات ہے كہ آپ ان افلام كے متعلق پريشان نہ ہوں.

حاصل يہ ہوا كہ: يہ سب كچھ ممنوع ہے، اور يہ حرام اور گناہ كا ذريعہ اور دروازہ ہے، اور اس كام كو انجام دينے والا بہت خطرناك موڑ پر پہنچ چكا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اللہ سبحانہ و تعالى نے ابن آدم پر زنا كا حصہ لكھ ركھا ہے جسے وہ لا محالہ پا كر رہےگا، تو آنكھ كا زنا ديكھنا ہے، اور زبان كا زنا بات چيت كرنا ہے، اور نفس اس كى خواہش كرتا اور چاہتا ہے، اور فرج اس سب كى تصديق كرتى ہے، اور جھٹلاتى ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6243 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2657 ).

اور مسلم كى روايت ميں ہے:

" ابن آدم پر اس كا زنا سے حصہ لكھ ديا گيا ہے، وہ اسے لامحالہ پا كر رہيگا، تو آنكھوں كا زنا ديكھنا ہے، اور كانوں كا زنا سننا ہے، اور زبان كا زنا كلام ہے، اور ہاتھ كا زنا پكڑنا ہے، اور پاؤں كا زنا چلنا ہے، اور دل اس كى خواہش كرتا اور چاہتا ہے، اور اس سب كى تصديق يا تكذيب شرمگاہ كرتى ہے "

چنانچہ آپ اس حديث پرغور كريں، اور جن فلموں كا آپ نے ذكر كيا ہے انہيں ديكھيں اور ان كے متعلق غور كريں، كيونكہ ان افلام كا مشاہدہ آنكھوں اور كانوں كے زنا پر مشتمل ہے، اور دل خواہش كرتا اور چاہتا ہے، اللہ تعالى ہميں سلامتى و عافيت سے نوازے.

آپ كو معلوم ہونا چاہيے كہ حرام فعل اور چيز فورى طور پر ترك كرنى ضرورى اور واجب ہے، اور گناہ كے بعد گناہ كرنا دل كو سياہ كر ديتا ہے، جيسا كہ درج ذيل حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يقينا جب بندہ كوئى برائى اور گناہ كرتا ہے تو اس كے دل ميں ايك سياہ نقطہ لگا ديا جاتا ہے، اور جب وہ اس گناہ كو ترك كر كے توبہ كر ليتا ہے تو اس كا دل صاف ہو جاتا ہے، اور اگر وہ دوبارہ وہى گناہ كرتا ہے تو اس ميں زيادتى كر دى جاتى ہے، حتى كہ وہ پورے دل پر چھا جاتا ہے، اور يہ وہى ران ( يعنى زنگ ) ہے جسے اللہ تعالى نے بلكہ ان كے دلوں پر زنگ چڑھ چكا ہے، اس كے باعث كہ جو وہ عمل كرتے رہے ہيں . كے الفاظ ميں قرآن مجيد ميں بيان كيا ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 3334 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 4244 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور آپ يہ بھى علم ركھيں كہ جو كوئى بھى اللہ تعالى كے ليے كوئى چيز ترك كر كے اس سے رك جاتا ہے تو اللہ تعالى اس كے بدلے اسے اس كا نعم البدل عطا فرماتا ہے، اس ليے آپ جتنى جلدى ہو سكے اس سے سچى اور پكى توبہ كريں، اور ان حرام كاموں كو فورا چھوڑ ديں، اور آپ اپنے آپ كو ان كاموں ميں مشغول ركھيں جو آپ كے دين اور دنيا كے ليے فائدہ مند ہوں اور آپ قرآن مجيد كى تلاوت كثرت سے كريں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور امہات المومنين اور صحابہ كرام رضى اللہ عنہم كى سيرت كا مطالعہ كريں، اور فائدہ مند تقارير اور دروس كى سماعت كريں، جو آپ كو اللہ كى ياد دلائيں، اور آپ كو دار آخرت كى ياد دلاتى رہيں، اور آپ كو حرام سے دور ركھيں.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ كو سيدھى راہ كى راہنمائى اور توفيق سے نوازے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android