كرنسى كى تجارت كا حكم كيا ہے ؟
كيا ماركيٹ ريٹ كے مطابق ايك كرنسى سے دوسرى كرنسى فروخت كرنے كى نتيجہ ميں حاصل ہونے والا نفع جائز ہے ؟
يہ بھى بتائيں كہ مثلا اگر ميں ايك ہزار ريال كو يورو ميں تبديل كرواں اور پھر اسى وقت انہيں ڈالر ميں تبديل كروا كر پھر اس كے ريال لے لوں تو كيا يہ جائز ہوگا، كيونكہ ميرے پاس اس طرح ايك ہزار دس ريال آ جائينگے، جو كہ عالمى كرنسى كے ريٹ پر اعتماد كرتے ہوئے ايسا ہوتا ہے ؟
كرنسى كى تجارت كا حكم
سوال: 72214
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جو طريقہ آپ نے سوال ميں بيان كيا ہے اس طريقہ سے كرنسى كا ايك شرط پر كاروبار كرنا جائز ہے، وہ يہ كہ كرنسى اسى وقت مجلس عقد ميں ہى اپنے قبضہ ميں كر كے وصول كى جائے.
لہذا ريال كو يورو كے ساتھ اس شرط پر فروخت كرنا جائز ہوگا جب ايك دوسرے كو مجلس كے اندر ہى ليے ديے جائيں، اور اس كے بعد يورو كو ريال ميں بھى بدلا جا سكتا ہے ليكن شرط وہى ہے كہ اسى وقت ليے ديے جائيں، تو اس كے نتيجہ ميں حاصل ہونے والا نفع جائز ہوگا، اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” سونا سونے كے بدلے، اور چاندى چاندى كے بدلے، اور گندم گندم كے بدلے، اور جو جو كے بدے، اور كھجور كھجور كے بدلے، اور نمك نمك كے بدلے ايك دوسرے كى مثل اور برابر برابر ہاتھوں ہاتھ، اور جب يہ اصناف مختلف ہوں تو پھر جب يہ نقد ہوں تو جس طرح تم چاہو فروخت كرو ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1587 ).
اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:
” كرنسى چينچ كے كاروبار ميں شرط يہ ہے كہ مجلس عقد ميں كرنسى اپنے قبضہ ميں لى جائے، اور كچھ كرنسى وصول كرلينى اور كچھ بعد ميں لينى جائز نہيں، كيونكہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جب يہ اصناف مختلف ہوں تو پھر جب ہاتھوں ہاتھ ہو تو تم جس طرح چاہو فروخت كرو ” انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 458 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب