كيا جو بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہميں حكم ديں وہ فرض ہوتا ہے ؟
اگر جواب ہاں ميں ہو تو پھر اس اور درج ذيل حديث ميں موافقت كس طرح دے سكتے ہيں حديث كا معنى يہ ہے:
" ميں نے جس سے تمہيں روكا ہے اس سے رك جاؤ، اور جس كا حكم ديا ہے اس پر حسب استطاعت عمل كرو "
اور اگر جواب نفى ميں ہو تو پھر مثال كے طور پر داڑھى پورى ركھنا فرض كيوں ہے سنت كيوں نہيں ؟
كيا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم وجوب كا فائدہ ديتا ہے ؟
سوال: 72242
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
شريعت ميں وارد شدہ اوامر تين قسم كے ہيں:
پہلى قسم:
امر كے ساتھ ايسے قرائن ملے ہوں جو وجوب اور فرضيت پر دلالت كرتے ہوں، جيسا كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور نماز قائم كرو البقرۃ ( 43 ).
كتاب و سنت كے قطعى دلائل اور مسلمانوں كا اجماع اس پر دلالت كرتا ہے كہ يہاں نماز پنجگانہ پابندى سے ادا كرنے كا حكم اور امر وجوب كے ليے ہے.
دوسرى قسم:
امر كے ساتھ ايسى چيز ملى ہو جو اس پر دلالت كرتى ہو كہ يہ امر وجوب كے ليے نہيں، مثلا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا صحيح بخارى ميں فرمان ہے:
" مغرب كى نماز سے قبل نماز ادا كرو، اور تيسرى بار آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جو چاہتا ہے وہ ادا كرے، آپ نے يہ اس ليے فرمايا كہ كہيں لوگ اسے سنت ہى نہ بنا ليں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 183 ).
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان " جو چاہے " اس كى دليل ہے كہ يہاں " نماز مغرب سے قبل نماز ادا كرو " ميں جو امر اور حكم ہے وہ وجوب كے ليے نہيں.
تيسرى قسم:
امر كے ساتھ كوئى بھى قرينہ نہ پايا جائے يعنى امر قرائن سے خالى ہو، اسے علماء كرام امر مطلق كا نام ديتے ہيں، اس كے ساتھ كوئى ايسا قرينہ نہيں جو وجوب وغيرہ پر دلالت كرتا ہو اور يہ حكم وجوب كے ليے ہو گا.
اسى ليے علماء كہتے ہيں: قرائن سے خالى امر وجوب كا فائدہ ديتا ہے "
مذاہب اربعہ كے جمہور علماء كرام كا يہى مسلك ہے.
ديكھيں: شرح الكوكب المنير ( 3 / 39 ).
انہوں اس كا استدلائل كتاب و سنت كے بہت سارے دلائل سے كيا ہے.
قرآن مجيد كے دلائل:
1 – ارشاد بارى تعالى ہے:
كسى بھى مومن مرد اور مومن عورت كو اللہ تعالى اور كے رسول كے فيصلے كے بعد اپنے كسى امر كا كوئى اختيار باقى نہيں رہتا، اللہ تعالى اور اس كے رسول كى جو بھى نافرمانى كرے گا وہ صريح گمراہى ميں پڑے گا الاحزاب ( 36 ).
اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے اور اپنے رسول كے امر اور حكم كو اختيار ميں مانع قرار ديا ہے، اور يہ اس كے وجوب كى دليل ہے. اھـ
ديكھيں: مذكرہ للشنقيطى ( 191 ).
2 – اللہ عزوجل كا فرمان ہے:
ان لوگوں كو ڈر جانا چاہيے جو رسول كے حكم كى مخالفت كرتے ہيں ان پر زبردست آفت نہ آ پڑے، يا انہيں دردناك عذاب نہ پہنچ جائے النور ( 63 ).
اللہ سبحانہ و تعالى نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كى مخالفت كرنے والوں كو فتنہ يا عذاب اليم كى وعيد سنائى ہے، اور وعيد اسى وقت آتى ہے جب ترك واجب ہو، تو يہ اس كى دليل ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا مطلق امر وجوب كا تقاضا كرتا ہے. اھـ
ديكھيں: شرح الورقات للفوزان ( 59 ).
اور قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس آيت سے فقھاء نے استدلال كيا ہے كہ امر وجوب كے ليے ہے " اھـ
ديكھيں: تفسر قرطبى ( 12 / 322 ).
3 – اس كے دلائل ميں يہ فرمان بارى تعالى بھى ہے جس ميں اللہ تعالى نے حكم كے باوجود ابليس كو سجدہ نہ كرنے كے متعلق كہا:
ارشاد ربانى ہے:
جب ميں نے تجھے حكم ديا تو تجھے سجدہ كرنے سے كس چيز نے منع كيا الاعراف ( 12 ).
اللہ تعالى نے ابليس كو حكم كى مخالفت كرنے كى وجہ سے ڈانٹا. اھـ
الشنقيطى ( 192 ).
4 – ارشاد بارى تعالى ہے:
كيا تو بھى ميرے حكم كا نافرمان بن بيٹھا طہ ( 93 ).
اور فرشتوں كے متعلق اللہ كا فرمان ہے:
وہ اللہ كے حكم كى نافرمانى نہيں كرتے جو انہيں حكم ديتا ہے التحريم ( 6 ).
يہ اس كى دليل ہے كہ امر كى مخالفت معصيت و نافرمانى ہے. اھـ
الشنقيطى ( 192 ).
5 – ارشاد بارى تعالى ہے:
اور جب انہيں ركوع كرنے كا كہا جاتا ہے تو وہ ركوع نہيں كرتے المرسلات ( 48 ).
ركوع كرنے كا حكم تسليم نہ كرنے كى بنا پر ان كى يہ مذمت ہے، اور يہ وجوب كى دليل ہے. اھـ
ديكھيں مذكرہ شنقيطى ( 192 ).
امر مطلق كے وجوب كا فائدہ دينے كى سنت نبويہ ميں بہت دليليں ہيں، جن ميں چند ايك درج ذيل ہيں:
1 – بريرہ رضى اللہ تعالى عنہا كا قصہ جس ميں ہے كہ جب وہ آزاد ہو گئيں اور اپنے خاوند جو كہ غلام تھا سے فسخ نكاح كو اختيار كيا، حالانكہ اس كا خاوند اس سے بہت محبت كرتا اور مدينہ كى گليوں ميں اس كے پيچھے روتا پھرتا حتى كہ آنسو رخساروں پر ہوتے اور وہ اسے راضى كرنے كى كوشش كرتا تا كہ وہ اسے قبول كر لے ليكن وہ ايسا نہ كرتى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بريرہ سے اس كى سفارش كى حتى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے كہا:
اے بريرہ اللہ سے ڈر جاؤ، وہ تيرا خاوند اور تيرے بچوں كا باپ ہے، تو وہ كہنے لگى:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا آپ مجھے اس كا حكم دے رہے ہيں ؟
تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
نہيں بلكہ ميں تو سفارشى ہوں، تو وہ كہنے لگى: مجھے اس ميں كوئى حاجت نہيں "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2231 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 1952 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے، اور امام بخارى نے صحيح بخارى حديث نمبر ( 5283 ) ميں دوسرے الفاظ كے ساتھ روايت كيا ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بريرہ رضى اللہ تعالى عنہا نے " كيا آپ مجھے حكم ديتے ہيں ؟ " اس ليے كہا تھا كہ مسلمانوں كے ہاں يہ بات طے شدہ تھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كى اطاعت كرنا واجب ہے. اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 1 / 317 ).
2 – سنت نبويہ كے دلائل ميں يہ حديث بھى ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اگر ميں اپنى امت يا لوگوں پر مشقت نہ سمجھوں تو انہيں ہر نماز كے ساتھ مسواك كا حكم دے دوں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 887 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 252 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح البارى ميں رقمطراز ہيں:
اس ميں يہ دليل پائى جاتى ہے كہ امر وجوب كے ليے ہے يہ دو وجہوں سے ہے:
پہلى وجہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مندوب كے ثبوت كے ساتھ امر كى نفى كى ہے، اور اگر يہاں امر ندب كے ليے ہوتا تو نفى جائز نہيں تھى.
دوسرى وجہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے امر كو ان كے ليے مشقت قرار ديا، يہ اس صورت ميں ہى ہو سكتا ہے جب امر وجوب كے ليے ہو، كيونكہ مندوب ميں كوئى مشقت نہيں، كيونكہ اس كا ترك كرنا جائز ہوتا ہے. اھـ
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كا امر جب مطلق ہو تو وہ وجوب كا متقاضى ہے. اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 22 / 29 ).
دوم:
اس قاعدہ اور اصول:
" اصل ميں امر وجوب كے ليے ہوتا ہے "
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان:
" جب ميں تمہيں كسى چيز سے منع كروں تو اس سے رك جاؤ، اور جب تمہيں كوئى حكم دوں تو حسب استطاعت اس پر عمل كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 7288 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1337 ).
اس ميں زيادہ سے زيادہ يہى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كى اطاعت حسب استطاعت كى جائے، اور يہ شريعت كى رحمت اور اس كا كمال ہے، اور يہ چيز رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےساتھ ہى خاص نہيں، بلكہ اللہ تعالى كے حكم كى اطاعت بھى استطاعت كے ساتھ مقيد ہے.
جيسا كہ فرمان بارى تعالى ہے:
حسب استطاعت اللہ كا تقوى اختيار كرو التغابن ( 16 ).
اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا البقرۃ ( 286 ).
امام نووى رحمہ اللہ مسلم كى شرح ميں لكھتے ہيں:
قولہ صلى اللہ عليہ وسلم:
" جب ميں تمہيں كسى چيز كا حكم دوں تو تم اس پر حسب استطاعت عمل كرو "
يہ اسلام كے اہم ترين قواعد اور اصول اور جوامع الكلم ميں سے ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ديے گئے، اور اس ميں وہ احكام داخل ہوتے ہيں جن كا شمار نہيں، مثلا سارى قسم كى نمازيں، چنانچہ جب كوئى شخص نماز كے بعض اركان اور بعض شروط كى ادائيگى سے قاصر اور عاجز ہو تو وہ باقى كى ادائيگى كريگا، اور جب وضوء يا غسل كے بعض اعضاء تك پانى پہنچانے سے معذور اور عاجز ہو تو جتنا ممكن ہو سكے وہ دھوئے گا.
اور اگر كسى شخص كے پاس اتنا ہى پانى ہو جو اس كى طہارت يا غسل نجاست كے ليے كافى ہو تو وہ جتنا ممكن ہو سكے اتنا ہىكريگا، اور اگر كوئى شخص اتنا ہى كپڑا پائے جس سے اس كا كچھ ستر ڈھانپا جا سكتا ہو تو وہ اتنا ہى كرےگا، يا پھر فاتحہ ميں سے كچھ حفظ كى تو وہ جتنا ممكن ہو اتنا ہى كريگا، اس طرح كى مثاليں اور اشياء بےشمار ہيں، جو كتب فقہ ميں مشہور ہيں، اصل پر متنبہ كرنا مقصود ہے" انتہى مختصرا.
اللہ سبحانہ و تعالى نے ركن اسلام كے ركن حج جو كہ عظيم فريضہ ہے كے متعلق فرمايا ہے:
اور لوگوں پر اللہ كے ليے بيت اللہ كا حج كرنا فرض ہے جو اس تك پہنچنے كى استطاعت ركھتا ہو آل عمران ( 97 ).
اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا داڑھى بڑھانے اور زيادہ كرنے كا حكم فرض اور وجوب پر دلالت كرتا ہے، كيونكہ اصل ميں امر وجوب كا فائدہ ديتا ہے، اور اس معنى سے پھيرنے كا كوئى قرينہ نہيں پايا جاتا.
داڑھى بڑھانے كےمتعلق آپ تفصيلى بيان سوال نمبر ( 1189 ) ( 48960 ) اور ( 8196 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات