كچھ سركارى محكموں ميں ميرے كام ہوتے ہيں، اور جب تك سركارى ملازم رشوت نہ لے وہ ميرے كام كو معطل كيے ركھتا ہے، كيا ميرے ليے اسے رشوت دينا جائز ہے ؟
اپنا حق لينے كے ليے رشوت دينا
سوال: 72268
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
رشوت كبيرہ گناہوں ميں شمار ہوتا ہے، اس كى دليل مسند احمد اور سنن ابو داود كى درج ذيل حديث ہے:
عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے رشوت دينے اور رشوت لينے والے پر لعنت فرمائى "
مسند احمد حديث نمبر ( 6791 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3580 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 2621 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
الراشى: رشوت دينے والے كو كہتے ہيں.
اور المرتشى: رشوت خور كو كہا جاتا ہے.
اگر آپ بغير رشوت ديے اپنا كام كروا سكتے ہيں كہ پھر آپ كے ليے رشوت دينا حرام ہے.
دوم:
اگر حقدار كو اپنا حق رشوت ديے بغير نہيں ملتا تو علماء كرام نے بيان كيا ہے كہ اس وقت اس كے ليے رشوت دينا جائز ہے، ليكن لينے والے كے ليے وہ رشوت حرام ہو گى نہ كہ دينے والے پر، انہوں نے مسند احمد كى درج ذيل حديث سے استدلال كيا ہے:
عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" بلا شبہ ان ميں سے كوئى ايك كچھ مانگتا ہے تو ميں اسے دے ديتا ہوں، تو وہ اسے بغل ميں دبا كر نكل جاتا ہے، ان كے ليے تو يہ آگ ہى ہے.
عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم تو آپ انہيں ديتے كيوں ہيں ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہ مانگے بغير جانے سے انكار كر ديتے ہيں، اور اللہ تعالى نے ميرے ليے بخل سے انكار كيا ہے "
مسند احمد حديث نمبر ( 10739 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 844 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں يہ مال ديتے حالانكہ يہ ان كے ليے حرام ہوتا تھا، تا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے آپ سے بخل كے نفى كر سكيں.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر اس نے اپنے سے اس كا ظلم روكنے كے ليے كوئى ہديہ ديا، يا اس ليے ديا كہ وہ اس كا واجب حق ادا كرے تو يہ ہديہ لينے والے پر حرام ہو گا اور دينے والے كے ليے ہديہ دينا جائز ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" بلا شبہ ميں ان ميں سے كسى ايك كو عطيہ ديتا ہوں …. الحديث " انتہى.
ماخوذ از: مجموع الفتاوى الكبرى ( 4 / 174 ).
اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ كا يہ بھى قول ہے:
" ظلم دور كرنے كے ليے رشوت دينى جائز ہے، نہ كہ حق روكنے كے ليے، اور ان دونوں ميں رشوت لينى حرام ہے "
اس كى مثال يہ ہے كہ: اگر كسى شخص نے شاعر يا شاعر كے علاوہ كسى اور كو اس ليے رقم دى كہ وہ اس كى ہجو وغيرہ نہ كرے، يا اس كى عزت سے ان الفاظ كے ساتھ مت كھيلے جو اس كے ليے حرام ہيں، تو اس كے ليے رقم خرچ كرنى جائز ہے، اور اس نے جو رقم اس ليے اس سے لى كہ وہ اس پر ظلم نہيں كريگا تو وہ رقم اس كے ليے حرام ہے؛ اس ليے كہ اسے پر ظلم كرنے سے باز رہنا واجب تھا….
تو اس نے جو مال بھى اس ليے ليا كہ وہ لوگوں پر جھوٹ نہ بولے، يا پھر ان پر ظلم نہيں كريگا تو يہ خبيث اور حرام ہے؛ كيونہ ظلم اور جھوٹ يہ دونوں ہى اس كے ليے حرام تھيں، اسے مظلوم سے بغير كسى معاوضہ اور عوض كے اسے ترك كرنا چاہيے تھا، اور اگر وہ معاوضہ كے بغير اس سے باز نہيں آتا تو يہ اس كے ليے حرام ہوگا " انتہى مختصرا.
ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 29 / 252 ).
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
" علماء كرام كا كہنا ہے: بلا شبہ جس نے بھى حكمران اور افسر كو كوئى ہديہ اس ليے ديا كہ وہ كوئى ايسا كام كرے جو اس كے ليے جائز نہ تھا تو ہديہ دينے اور ہديہ لينے والے دونوں پر وہ حرام ہے، اور يہ اسى رشوت ميں شمار ہو گا جس كے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:
" اللہ تعالى نے رشوت لينے اور رشوت دينے والے پر لعنت فرمائى ہے "
اور اگر وہ اسے اس ليے ہديہ ديتا ہے كہ وہ اس سے ظلم نہ كرے، يا پھر وہ اس كا واجب حق ادا كرے، تو يہ ہديہ لينے والے پر تو حرام ہوگا اور دينے والے كے ليے جائز ہوگا، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" بلا شبہ ميں ان ميں سے كسى ايك كو ديتا ہوں اور وہ بغل ميں آگ دبا كر نكلتا ہے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا گيا: آپ انہيں ديتے كيوں ہيں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
وہ مجھ سے مانگے بغير جاتے ہى نہيں، اور اللہ تعالى ميرے ليے بخل جيسى صفت سے انكار كرتا ہے "
اسى طرح لوگوں پر ظلم كرنے والے كو دينا ہے، يہ دينے والے كے ليے تو جائز ہوگا، ليكن لينے والے پر حرام ہے .
اور سفارش ميں ہديہ دينا، مثلا كوئى شخص حكمران كے پاس سفارش كرے تا كہ اس سے ظلم كو روكے، يا اس تك اس كا حق پہنچائے، يا اسے وہ ذمہ دارى دے جس كا وہ مستحق ہے، لڑائى كے ليے فوج ميں اسے استعمال كرے اور وہ اس كا مستحق ہو، يا فقراء يا فقھاء يا قراء اور عبادت گزاروں كے ليے وقف كردہ مال ميں سے دے اور وہ مستحق ہو، اور اس طرح كى سفارش جس ميں واجب كام كے فعل ميں معاونت ہوتى ہو، يا كسى حرام كام سے اجتناب ميں معاونت ہو، تو اس ميں بھى ہديہ قبول كرنا جائز نہيں، ليكن دينے والے كے ليے وہ كچھ دينا جائز ہے تا كہ وہ اپنا حق حاصل كر سكے يا اپنے سےظلم روك سكے، سلف آئمہ اور اكابر سے يہى منقول ہے " انتہى كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.
ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 31 / 278 ).
اور تقى الدين السبكى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ہم نے جو رشوت ذكر كى ہے اس سے مراد وہ رشوت ہے جو كسى حق كو روكنے يا باطل كو حاصل كرنے كے ليے دى جائے، اور اگر آپ كسى حق حكم كو حاصل كرنے كے ليے ديں تو يہ لينے والے پر حرام ہوگا، ليكن جس نے ديا ہے اگر وہ بغير ديے اپنا حق حاصل نہيں كر سكتا تو اس كے ليے جائز ہے، اور اگر وہ رشوت ديے بغير ہى اسے حاصل كر سكتا ہے تو جائز نہيں "
ديكھيں: فتاوى السبكى ( 1 / 204 ).
اور سيوطى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" ستائيسواں قاعدہ اور اصول:
( جس كا لينا حرام ہو وہ دينا بھى حرام ہے ) جيسا كہ سود، اور فاحشہ عورت كى كمائى، اور نجومى و كاہن كى شرينى، اور رشوت، اور نوحہ و مرثيہ گوئى كرنے والے كى مزدورى.
اس سے كچھ صورتيں مستثنى ہيں: جس ميں حاكم سے اپنا حق حاصل كرنے كے ليے رشوت دينى، اور قيدى چھڑانے كے ليے، يا اسے كچھ دينا جس سے خدشہ ہو كہ وہ اس كى ہجو اور بدگوئى كريگا " انتہى.
ديكھيں: الاشباہ و النظائر صفحہ نمبر ( 150 ).
حلوان الكاہن: وہ اشياء جو كاہن اور نجومى كہانت اور اٹكل پچو باتيں بتا كر حاصل كرتے ہيں.
اور حموى الحنفى " غمز عيون البصائر " ميں كہتے ہيں:
" چودھواں قاعدہ اور اصول:
( جس كا لينا حرام ہے وہ دينى بھى حرام ہوگى ) مثلا سود، اور فاحشہ عورت كى كمائى، اور كاہن و نجومى كى شرينى، اور رشوت، اور نوحہ كرنے والے كى اجرت.
مگر كچھ مسائل ميں نہيں:
1 – اپنے مال يا جان كے خدشہ كے پيش نظر رشوت دينا.
يہ تو دينے والے كى جانب سے ہے ليكن لينے والے كى جانب سے وہ حرام ہوگى " انتہى بتصرف.
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" اور ابن نجيم حنفى كى كتاب " الاشباہ " ميں ہے:
اور اسى طرح زركشى شافعى كى كتاب: " المنثور " ميں ہے:
جس كا لينا حرام ہو اس كى دينا بھى حرام ہے، مثلا سود، اور فاحشہ عورت كى كمائى، اور كاہن و نجومى كى شرينى، اور حكمران كو اس ليے رشوت دينى كہ وہ ناحق اس فيصلہ كرے، مگر كچھ مسائل ميں نہيں:
اپنى جان اور مال كے ڈر سے رشوت دينى، يا قيدى چھڑانے، يا ايسے شخص كو دينى جس سے خدشہ ہو كہ وہ اس كى ہجو كريگا " انتہى.
اور استاد ڈاكٹر وھبۃ الزحيلى كہتے ہيں:
" جب اپنى غرض تك پہنچنے كے ليے رشوت كے بغير كوئى راہ متعين نہ ہو ضرورت كى بنا پر رشوت دينا جائز ہے، اور رشوت لينے پر حرام ہو گى " انتہى.
خلاصہ يہ ہوا كہ:
آپ كے ليے رشوت دينى جائز ہے، ليكن يہ اس ملازم اور اہلكار كے ليے حرام ہو گى جو لے رہا ہے، ليكن اس ميں دو شرطيں ہيں:
1 – آپ رشوت اس ليے ديں كہ اپنا حق حاصل كر سكيں، يا پھر اپنے آپ كو ظلم سے بچا سكيں، ليكن اگر آپ رشوت اس ليے ديں كہ آپ وہ چيز لينا چاہيں جو آپ كا حق نہيں تو يہ حرام اور كبيرہ گناہوں ميں شامل ہو گا.
2 – آپ كے ليے اپنا حق حاصل كرنے كے ليے، يا پھر اپنے آپ سے ظلم ہٹانے كے ليے رشوت كے بغير كوئى اور وسيلہ نہ ہو.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب