ميں ايك ديندار گھرانے سے تعلق ركھتا ہوں اور الحمد للہ ايك ديندار گھرانے ميں ہى ميرى شادى ہوئى ميرا سسر داعى دين اور مصلح افراد ميں سے ہے، اور اس كى سارى اولاد حافظ قرآن ہے، مشكل يہ ہے كہ ميرى بيوى ان آخرى ايام ميں بہت بدل چكى ہے، مجھ پر انكشاف ہوا كہ اس كے ايك شخص كے ساتھ ناجائز تعلقات تھے، ابتدا ميں تو ٹيلى فون كے ذريعہ رابطہ ہوا اور پھر كئى ايك ملاقاتيں بھى ہوئيں.
جب سے يہ انكشاف ہوا ہے ميرى بيوى صاحب فراش بن كر رہ گئى ہے اور اس كى نفسياتى حالت بھى خراب ہو چكى ہے، اور وہ اپنے كيے پر نادم ہے، جب ميں نے اس سے بات چيت كى تو اس نے قسم اٹھا كر كہا كہ اس نے زنا كا تو ارتكاب نہيں كيا، بلكہ ملاقات بات چيت كى حد تك ہى رہى ہے، بيوى نے بتايا كہ وہ اس سے دور رہنا چاہتى تھى، ليكن اس شخص نے دھمكى دى اور بليك ميل كيا، اب وہ اپنے كيے پر نادم ہے، اس پر اثرانداز ہونے والے اسباب ميں درج ذيل سبب شامل ہيں:
ـ ميں اپنى بيوى سے بہت ہى كم بات چيت كرنے والا شخص ہوں، اور اس كے جذبات پورے نہيں كرتا.
ـ آخرى ايام ميں ميں اپنے گھر والوں كو رہائش لے كر نہيں دے سكا.
ـ ميں نے بيوى كو مستقل طور پر اس كى رشتہ دار لڑكيوں سے ملاقات دے ركھى تھى، اور مجھے علم نہيں تھا كہ يہ لڑكياں خراب ہيں انہوں نے ميرى بيوى كو بھى اس گندگى ميں دھكيل ديا.
ـ شادى سے قبل ميں نے كچھ كبيرہ گناہوں ( مثلا زنا بلكہ اس سے بھى سخت ) كا ارتكاب كيا، ميرا خيال ہے كہ اللہ نے مجھے اس كى سزا دى ہے.
ـ آخرى ايام ميں ميرى بيوى كى نفسياتى حالت بہت خراب تھى حالانكہ ايسا كبھى نہيں ہوا، ليكن اب ميں اللہ كو گواہ بنا كر كہتا ہوں كہ وہ اس گناہ سے توبہ كر چكى ہے، وہ روتى رہتى ہے اور تسليم نہيں كرتى كہ يہ كام ہوا ہو، ميرى اس سے اولاد بھى ہے.
ميرا سوال يہ ہے كہ مجھے كيا كرنا چاہيے: كيا ميں اسے طلاق دے دوں، حالانكہ مجھے اس كى توبہ كا يقين بھى ہو چكا ہے اور كيا اس كى توبہ قبول ہو گى ؟
اپنى اولاد كو اس كے ساتھ ركھنا اور دوسرى شادى كرنا ميرے ليے عذاب ہے، كيا ميں اس كا يہ گناہ معاف كر كے اس كے ليے اور اپنے غم و پريشانى سے نجات كى دعا كروں ؟
اور كيا اگر ميں ايسا كر ليتا ہوں تو كہيں ديوث تو نہيں كہلاؤنگا جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وصف بيان كيا ہے، گھر تباہى كى طرف جا رہا ہے.
انكشاف ہوا كہ بيوى كے ايك شخص سے ناجائز تعلقات تھے، اب وہ توبہ كر چكى ہے كيا اسے طلاق دے دى جائے
سوال: 72355
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
آپ دونوں نے جن گناہوں كا ارتكاب كيا اس پر آپ دونوں كى توبہ پر آپ كو مباركباد ديتے ہيں، كيونكہ توبہ كرنا اللہ سبحانہ و تعالى كا فضل عظيم ہے اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے خود بھى اپنے سب مومن بندوں كو توبہ كرنے كى دعوت دى ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے مومنوں تم سب كے سب اللہ كى طرف توبہ كرو تا كہ تم كامياب ہو سكو النور ( 31 ).
آپ دونوں كو علم ہونا چاہيے كہ اللہ سبحانہ و تعالى اپنے بندے كى توبہ پر بہت خوش ہوتا ہے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اللہ سبحانہ و تعالى اپنے بندے كى توبہ سے بہت خوش ہوتا ہے، جب تم ميں سے كوئى توبہ كرتا ہے تو اللہ كو اس بندے سے بھى زيادہ خوشى ہوتى ہے جس كى سوارى كسى بيابان جنگل ميں گم ہو جائے جس پر اس كا كھانا پينا اور زاد راہ تھا، وہ اس كے ملنے سے نا اميد ہو جائے اور ايك درخت كے نيچے آ كر ليٹ جائے، وہ اپنى سوارى سے نااميد ہو چكا ہو اور اچانك اس كى سوارى اس كے پاس كھڑى ہو تو وہ سوارى كى نكيل پكڑ كر خوشى كى شدت سے يہ كہہ ڈالے:
اے اللہ تم ميرا بندہ اور ميں تيرا رب ہوں ! اسے خوشى كى شدت ميں علم ہى نہ رہے كہ اس نے غلط بات كہہ ڈالى ہے اللہ اس سے بھى زيادہ بندے كى توبہ سے خوش ہوتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5950 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2747 ).
اور آپ دونوں يہ بھى علم ركھيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے توبہ كرنے پر گناہوں كو نيكيوں ميں تبديل كرنے كا وعدہ فرمايا ہے.
فرمان بارى تعالى ہے:
مگر جو كوئى توبہ كر لے اور ايمان لے آئے اور نيك و صالح اعمال كرے، تو اللہ سبحانہ و تعالى انہيں لوگوں كى برائياں نيكيوں ميں بدل ديتا ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے الفرقان ( 70 ).
ليكن شرط يہ ہے كہ اس كى توبہ صحيح ہو، صحيح توبہ ميں درج ذيل شروط كا ہونا ضرورى ہے:
پہلى شرط:
فورى طور پر گناہ كو چھوڑ ديا جائے.
دوسرى شرط:
اپنے فعل پر نادم ہو.
تيسرى شرط:
آئندہ ايسا نہ كرنے كا پختہ عزم كيا جائے.
دوم:
بلاشك و شبہ آپ كى بيوى نے جو كچھ كيا وہ بہت ہى برا كام تھا، ليكن جب وہ اس كام سے توبہ كر چكى ہے، اور اس كى يہ توبہ اس كى پہلى حالت ميں لانے ميں اس كى ممد و معاون ثابت ہوگى بلكہ اس سے بھى بہتر حالت ہو جائيگى.
ہم يقينى طور پر تو بالجزم اس كے ساتھ رہنے كا نہيں كہہ سكتے، ليكن يہ ضرور كہيں گے كہ:
اگر آپ ديكھيں كہ اس نے سچى توبہ كر لى ہے، اور وہ اپنے كيے پر بہت شديد نادم ہے، اور اس كى حالت ميں تبديلى پيدا ہوئى اور وہ اچھى حالت ميں آئى ہے، اور اس كى معصيت و گناہ كا آپ پر سلبى اور منفى اثر نہيں پڑيگا، كہ آپ اس ميں شك كريں اور بغض ركھيں.
تو ہمارى رائے يہى ہے كہ آپ اسے اپنے نكاح ميں ہى ركھيں، تا كہ وہ اپنى توبہ كى حفاظت كرے، اور آپ كى اولاد كو ضائع اور تباہ ہونے سے محفوظ كر سكے.
ہميں اميد ہے كہ اس كى حالت ايسى ہى ہوگى يعنى وہ توبہ كے بعد پہلے سے بھى زيادہ نيك و صالح ہوگى، اور اميد ہے كہ آپ اسے حسن معاشرت سے اپنے ساتھ ركھيں گے، اور جو كچھ اس سے ہوا اس كا آپ پر كوئى اثر نہيں ہوگا، خاص كر جب آپ يہ بيان كر چكے ہيں كہ آپ سے بھى فحش كام اور معصيت و گناہ كا ارتكاب ہو چكا ہے، اور پھر آپ نے بھى اللہ كے فضل و كرم سے ان كاموں كے ارتكاب سے توبہ كر لى.
بلاشك و شبہ آپ نے اپنى بيوى كے حقوق ميں جو كوتاہى روا ركھى ہے اس كى بنا پر بيوى كى آپ سے نفرت اور گناہ كے ارتكاب ميں بہت بڑا دخل ہے، اگرچہ بيوى كو ايسا نہيں كرنا چاہيے تھا ليكن آپ كو چاہيے كہ آپ اپنے بارہ ميں متنبہ رہيں، اور آپ پر اللہ سبحانہ و تعالى نے بيوى اور بچوں كے جو حقوق واجب كيے ہيں ان كى صحيح طور پر ادائيگى كريں.
اور بيوى كے آپ پر حقوق ميں يہ بھى شامل ہے كہ سچى توبہ كرنے ميں آپ اس كے ممد و معاون ثابت ہوں، اور آپ اس كى خير و بھلائى كى طرف راہنمائى كريں، اور ہر قسم كى برائى اور غلط كام سے اسے بچا كر محفوظ ركھيں، اور آپ كے لي جائز نہيں كہ بيوى كو ايسے افراد سے ملنے كى اجازت ديں جو اسے خراب اور گمراہ كرنے كا باعث بنيں، چاہے وہ اس كے قريبى رشتہ دار ہى كيوں نہ ہوں.
كيونكہ آپ اپنے گھر اور بيوى بچوں كے نگران و حاكم ہيں، اللہ سبحانہ و تعالى نے روز قيامت آپ سے اس ذمہ دارى كے بارہ ميں دريافت كرنا ہے، كہ آيا آپ نے اللہ كا واجب كردہ حق ادا كيا تھا يا نہين.
ہمارى رائے تو يہى ہے كہ آپ اپنى بيوى كى معصيت و نافرمانى كى پردہ پوشى كريں، اور آپ اس كى توبہ پر اس كا شكريہ ادا كريں اور اس كى توبہ كو سراہيں، اور اسے اپنے ساتھ اپنے نكاح ميں ہى ركھيں.
بيوى كى توبہ و استغفار كے بعد اسے اپنے ساتھ نكاح ميں ركھنا ديوثيت نہيں ہے، بلكہ ديوثيت تو يہ ہے كہ بيوى توبہ نہ كرے اور اپنے فحش كاموں پر مصر ہو، اور حرام تعلقات قائم ركھے اور آپ اس پر خاموش ہو جائيں، ہم اميد ركھتے ہيں كہ آپ كى بيوى اس سے سچى اور خالص توبہ كر چكى ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب