0 / 0

بنك سے ملنے والا انعام

سوال: 72413

اگر كسى شخص كا بنك ميں بغير فائدہ كے كرنٹ اكاؤنٹ ہو اور اسے بنك كى جانب سے انعام كا مستحق قرار ديا جائے اور انعام ميں گاڑى ملے تو كيا يہ حلال ہوگى يا حرام، اگر كوئى يہ گاڑى حاصل كر لے تو اسے كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

اگر بنك سودى لين دين كرتا ہو تو اس ميں پيسے ركھنے جائز نہيں ليكن اگر كسى كو اپنے مال كے چورى وغيرہ ہونے كا خدشہ ہو اور كوئى اسلامى بنك نہ ہو اور بنك كے علاوہ كوئى اور بھى محفوظ جگہ نہ ملے تو پھر بنك ميں رقم بغير فوائد اور سود كے ركھنى جائز ہو گى، ليكن پھر بھى بچنا بہتر ہے.

رابطہ عالم اسلامى كى فقہ اكيڈمى كے اجلاس منقعدہ 1406 ھـ ميں درج ذيل فيصلہ كيا گيا:

ہر وہ مسلمان شخص جو اسلامى لين دين كر سكتا ہو، اس كے ليے ملك كے اندر اور ملك كے باہر سودى كاروبار كرنے والے ادارے اور بنكوں سے لين دين كرنا حرام ہے؛ جبكہ اس كے بدلہ ميں اس كے پاس اسلامى حل موجود ہو اور سودى لين دين كرنے والے اداروں كے ساتھ لين دين كرنے كا اس كے پاس كوئى عذر نہيں.

اس پر واجب ہے كہ وہ اچھى اور بہتر چيز كو گندى اور خبيث سے بچا كر ركھے، اور حرام سے حلال كے ساتھ مستغنى ہو جائے " انتہى.

منقول از: حكم ودائع البنوك تاليف: ڈاكٹر على السالوس صفحہ نمبر ( 136 ).

اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

سودى بنكوں اور اسى طرح دوسرى سودى كمپنيوں وغيرہ ميں رقم وغيرہ ركھنى جائز نہيں، چاہے وہاں فوائد كے ساتھ رقم ركھى جائے، يا بغير سودى فوائد كے؛ كيونكہ وہاں پيسے ركھنے ميں گناہ و ظلم و زيادتى ميں تعاون ہوتا ہے.

اور اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور تم گناہ و ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو

ليكن اگر مال كے چورى يا غصب يا ڈاكے وغيرہ كے ڈر سے ضائع ہونے كا خدشہ ہو، اور سودى بنك ميں ركھنے كے علاوہ كوئى اور حفاظت كا طريقہ نہ ملے تو پھر اس صورت ميں بنك يا سودى اداروں وغيرہ ميں بغير سود اور فوائد كے رقم ركھنى جائز ہو گى، تا كہ اس كى حفاظت ہو سكے؛ كيونكہ ايسا كرنے ميں دو ممنوعہ كاموں ميں سے ايك كم تر درجے كے ممنوعہ كام كا ارتكاب ہے. انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 346 ).

دوم:

بعض بنك اور كمپنياں ايك حيلہ سے كام ليتے ہيں تا كہ وہ اپنے معاملہ كو لوگوں ميں رائج كر سكيں، وہ سودى فوائد كا اعلان تو نہيں كرتے، بلكہ انعامات كا اعلان كر ديتے ہيں، كہ اس پر انہيں انعامات ديے جائينگے، يا پھر ہر سال كے آخرميں يا پھر ہر چھ ماہ كے بعد قرعہ اندازى كے ذريعہ انعامات ديے جائينگے، تو اس طرح ان كا لين دين زيادہ ہوتا ہے جسے وہ رقم جمع كروانے كى دستاويز يا سرمايہ كارى دستاويز كا نام ديتے ہيں، تو اس طرح يہ حيلہ حرام چيز كو حلال نہيں كر سكتا.

كيونكہ بنك اپنے مال سے انعامات تقسيم نہيں كرتا، بلكہ يہ سودى فوائد ہوتے ہيں، جو اس طريقہ سے سب كھاتہ داروں ميں تقسيم كرنے كى بجائے بعض كوانعامات كى شكل ميں ديے جاتے ہيں، اور يہ طريقہ سود اور جو يعنى قمار بازى دونوں چيزوں كو جمع كر ديتا ہے.

ڈاكٹر على السالوس اپنى كتاب " معاملات البنوك الحديثۃ فى ضوء الاسلام " ميں كہتے ہيں:

" اور اگر سودى بنك نے سندوں اور دستاويز كو تين اقسام ميں كر ركھا ہے، تو ان ميں سے پہلى قسم كو دوسرى نہيں بننے ديا، اور اس كا مقصد يہ ہے كہ وہ زيادہ سے زيادہ تعداد اكٹھى كر سكے، تو اس طرح آخرى گروپ ميں اس نے ايك دور كا قدم اٹھا كر مجموعى سود كى طرف آيا ہے پھر اسے مختلف رقموں ميں تقسم كر ديا ہے تا كہ قرض والوں كى بہت ہى كم تعداد شامل ہو سكے.

پھر اس مجموعى رقم كو جسے انعامات كا نام ديا گيا ہے قرعہ اندازى كے ذريعہ تقسم كر ديا جاتا ہے؛ تو اس طرح ہم ديكھتے ہيں كہ بعض اوقات بہت ہى قليل قرض والا شخص ہزاروں روپے حاصل كر ليتا ہے، ليكن اس كے مقابلہ ميں اگر ديكھيں تو ہزاروں روپے والا بعض اوقات كچھ بھى حاصل نہيں كر پاتا.

تو پہلے شخص نے اپنے سود كا حصہ بھى اور اپنے علاوہ دوسرے بہت سے افراد كے حصہ كا سود بھى حاصل كر ليتا ہے، اور دوسرے شخص كا حصہ كسى اور كو مل جاتا ہے، اور ہر بار جب انعامات تقسيم ہوتے ہيں تو اس كا خيال ركھنے والےاور انتظار كرنے والے انتظار كرتے ہيں، جسے مل جائے وہ خوشى و سرور كے ساتھ باہر آتا ہے، اور وہ اس پر غمگين ہے جسے كچھ نہ ملا، اور اسى طرح دوسرى قرعہ اندازى تك انتظار رہتا ہے.

كيا يہ قمار بازى اور جوا نہيں تو اور كيا ہے ؟ تو اس طرح سودى بنك سود كے ساتھ قمار بازى كرتا ہے؛ تو اس طرح دونوں گروپوں ميں سے جو شخص اپنا حصہ حاصل نہيں كرسكا، تو وہ تيسرے گروپ ميں اپنے حصہ كا جوا كھيل لے… كيا يہ ممكن نہيں كہ تيسرا گروپ ( ج ) اپنے پہلے دونوں گروپوں سے بھى برا ہو ؟ " انتہى.

ديكھيں كتاب: معاملات البنوك الحديثۃ فى ضوء الاسلام ( 38 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال كيا گيا:

بعض تجارتى بنك مال محفوظ ركھنے والوں كے ليے كرنٹ اكاؤنٹ كھلوانے والوں كے ليے كچھ انعامات ركھتے ہيں مثلا: گاڑياں، يا تعمير شدہ گھر، اور بنك كے كھاتہ داروں كے درميان قرعہ اندازى كرتے ہيں اور كوئى ايك كھاتہ دار انعام حاصل كر ليتا ہے، تو اس انعام كا حكم كيا ہے چاہے وہ مالى انعام ہو يا كوئى اور چيز ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" اگر تو معاملہ بالكل اسى طرح ہے جيسا سوال ميں بيان ہوا ہے تو يہ انعامات جائز نہيں؛ كيونكہ يہ سودى بنك ميں اپنا مال ركھنے كے عوض ميں ہيں، اور يہ سودى فوائد ہيں، نام تبديل كرنے سے حقيقت تبديل نہيں ہو جاتى " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 15 / 196 ).

سوم:

جب يہ فيصلہ ہوچكا كہ سودى بنك جو انعامات تقسيم كرتا ہے وہ بعينہ سودى فوائد ہيں، تو اس ميں سے جو شخص بھى كوئى چيز لے اس كے ليے اس چيز سے چھٹكارا حاصل كرنا ضرورى ہے، وہ اسے نيكى و فلاح كے كاموں ميں صرف كر دے، اور اس كے ساتھ ساتھ اسے سودى بنك سے اپنى رقم بھى ضرور نكلوانى ہوگى، ليكن شديد ضرورت كے پيش نظر جس كا اوپر بيان ہو چكا ہے ركھى جا سكتى ہے.

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" سودى فوائد حرام اموال ميں شامل ہوتے ہيں، اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور اللہ تعالى نے خريدوفروخت حلال كى ہے، اور سود كو حرام كيا ہے .

اور جس شخص كو بھى اس سود ميں سے كچھ مل جائے اسے وہ رقم مسلمانوں كے نفع ميں خرچ كر كے اس رقم اور چيز سے چھٹكارا حاصل كر لے، ان ميں سڑكيں اور راستوں كى تعمير، اور مدارس بنانے، اور فقراء و مساكين كو دينا شامل ہے " … انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 354 ).

چہارم:

بنكوں ميں ركھى جانے والى رقم جسے وہ امانت يا جارى اكاؤنٹ كا نام ديتے ہيں، يا كوئى اور نام تو يہ حقيقت ميں بنك كے ليے مال والے كى طرف سے قرض ہے، اور اگر معاملہ ايسا ہى ہے تو پھر قرض والے شخص كے ليے مقروض شخص سے قرق كے عوض ميں كوئى بھى نفع حاصل كرنا جائز نہيں، علماء كرام كا اتفاق ہے كہ جو قرض بھى كوئى منفعت اور نفع لائے وہ حرام ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور ہر وہ قرض جس ميں زيادہ ہونے كى شرط ركھى جائے وہ بغير كسى اختلاف كے حرام ہے، ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں: اس پر سب جمع ہيں كہ جب ادھار دينے والا ادھار لينے والے كے ليے زيادہ يا ہديہ دينے كى شرط ركھے، اور اس پر ادھار دے تو اس پر زيادہ لينا سود ہے.

ابى بن كعب، ابن عباس، اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم سے روايت كيا جاتا ہے كہ: انہوں نے نفع لانے والے قرض سے منع فرمايا ہے " انتہى.

ديكھيں: المغنى ابن قدامۃ المقدسى ( 6 / 436 ).

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android