حيض كے پہلے دن بيوى اپنے خاوند كو بتانا بھول گئى كہ اسے حيض شروع ہو چكا ہے، اور خاوند سے طلاق كا مطالبہ كر ديا، خاوند نے تيسرى طلاق بھى دے دى، پھر بيوى كو ياد آيا كہ اسے تو حيض آيا ہوا ہے لہذا اس نے خاوند كو بتايا، برائے مہربانى آپ يہ بتائيں كہ اس سلسلہ ميں شرعى موقف كيا ہے ؟
حيض كى حالت ميں طلاق دينا
سوال: 72417
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
حائضہ عورت كى طلاق ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے كہ آيا اسے دى گئى طلاق واقع ہو گى يا نہيں ؟
جمہور فقھاء كرام كے ہاں يہ طلاق واقع ہو جائيگى، ليكن كچھ فقھاء كے ہاں حيض كى حالت ميں دى گئى طلاق واقع نہيں ہوتى، اس دور كے اكثر فقھاء جن ميں شيخ ابن باز اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ شامل ہيں كا فتوى بھى يہى ہے كہ يہ طلاق واقع نہيں ہوتى.
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اللہ سبحانہ و تعالى نے مشروع كيا ہے كہ عورت كو حيض اور نفاس سے پاكى كى حالت ميں طلاق دى جائے، اور اس حالت ميں كہ اس طہر ميں خاوند نے بيوى سے جماع نہ كيا ہو تو يہ شرعى طلاق ہے، اس ليے اگر اسے حيض يا نفاس ميں يا پھر ايسے طہر ميں طلاق دى جس ميں اس نے بيوى سے جماع كيا تو يہ طلاق بدعى ہے، اور علماء كے صحيح قول كے مطابق يہ طلاق واقع نہيں ہوگى كيونكہ اللہ عزوجل كا فرمان ہے:
اے نبى ( اپنى امت سے كہو كہ ) جب تم اپنى بيويوں كو طلاق دينا چاہو تو ان كى عدت ( كے دنوں كے آغاز ) ميں انہيں طلاق دو الطلاق ( 1 ).
اس كا معنى يہ ہے كہ وہ جماع كيے بغير طہر كى حالت ميں ہوں، اہل علم نے اس عدت ميں طلاق كے متعلق يہى كہا ہے، كہ وہ جماع كے بغير طہر ميں ہوں يا پھر حاملہ ہوں، يہى طلاق عدت ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى الطلاق ( 44 ).
مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" طلاق بدعى كى كئى قسميں ہيں:
كہ آدمى اپنى بيوى كو حيض يا نفاس كى حالت ميں يا پھر ايسے طہر ميں طلاق دے جس ميں بيوى سے جماع كيا ہو، صحيح يہ ہے كہ يہ طلاق واقع نہيں ہوگى " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 58 ).
اس بنا پر اگر طلاق حيض كى حالت ميں دى گئى ہے تو يہ طلاق واقع نہيں ہوئى اور يہ شمار نہيں ہوگى، اور عورت اپنے خاوند كى عصمت ميں ہى رہےگى.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص نے بيوى كو حيض كى حالت ميں طلاق دے دى اسے علم نہ تھا كہ بيوى كو حيض آيا ہوا ہے تو كيا يہ طلاق واقع ہو جائيگى يا نہيں ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" ماہوارى كى حالت ميں دى گئى طلاق كے متعلق علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، اور اس ميں بہت لمبى بحث كى گئى ہے كہ آيا يہ طلاق لاگو ہى گى يا شمار نہيں ہوگى ؟
جمہور اہل علم كے ہاں يہ طلاق لاگو ہو جائيگى، اور عورت پر ايك طلاق شمار ہوگى، ليكن اسے واپس لانے كا حكم ديا جائيگا كہ وہ اسے واپس لائے اور حيض ختم ہونے تك چھوڑے ركھے پھر دوبارہ حيض آئے اور جب پاك ہو تو اگر چاہے تو اسے اپنى عصمت ميں ركھ لے اور اگر چاہے تو اسے طلاق دے دے.
جمہور اہل علم اسى پر ہيں جن ميں آئمہ اربعہ امام احمد امام شافعى امام مالك اور امام ابو حنيفہ رحمہم اللہ شامل ہيں، ليكن ہمارے نزديك راجح وہى جو شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اختيار كيا ہے كہ حيض كى حالت ميں دى گئى طلاق واقع نہيں ہوتى، اور نہ ہى لاگو ہوگى.
كيونكہ يہ اللہ سبحانہ و تعالى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كے خلاف ہے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ مردود ہے قابل قبول نہيں "
اور پھر اس مسئلہ ميں تو خاص دليل بھى پائى جاتى ہے وہ يہ كہ عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے اپنى بيوى كو حيض كى حالت ميں طلاق دے دى اور جب اس كى خبر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو دى گئى تو آپ ناراض ہوئے اور فرمايا:
" اسے حكم دو كہ وہ اپنى بيوى سے رجوع كرے پھر اسے چھوڑ كر ركھے حتى كہ وہ پاك ہو جائے پھر اسے حيض آئے اور پھر وہ پاك ہو پھر وہ چاہے تو اسے ركھے يا پھر اسے طلاق دے دے "
پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يہ وہ عدت ہے جس كے ليے اللہ تعالى نے طلاق دينے كا حكم ديا ہے "
چنانچہ وہ عدت جس كے ليے اللہ تعالى نے طلاق دينے كا حكم ديا ہے وہ يہ ہے كہ انسان بيوى كو اس حالت ميں طلاق دے كہ وہ پاك ہو اور خاوند نے اس سے جماع نہ كيا ہو، اس بنا پر اگر كوئى شخص اسے حيض كى حالت ميں طلاق ديتا ہے تو اس نے اللہ كے حكم كے مطابق طلاق نہيں دى، تو يہ طلاق مردود اور ناقابل قبول ہوگى.
اس ليے ہمارى رائے ميں تو اس عورت كو جو طلاق دى گئى ہے وہ شمار اور لاگو نہيں ہوگى، اور ابھى تك يہ عورت اپنے خاوند كى عصمت ميں ہے، اور طلاق ديتے وقت مرد كا عورت كے بارہ ميں پاك ہونے يا حيض كى حالت ميں ہونا كوئى معتبر نہيں، جى ہاں اس كے علم كا اعتبار نہيں.
ليكن اگر اسے علم ہوگيا كہ وہ حيض كى حالت ميں ہے تو پھر اس نے طلاق دے دى تو گناہ خاوند پر ہے اور يہ طلاق واقع نہيں ہوگى، اور اگر وہ علم نہيں ركھتا تھا تو پھر صرف طلاق نہيں ہوگى اور خاوند پر گناہ نہيں ہوگا " انتہى
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 268 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب