0 / 0
4,63920/10/2013

ايك برس تك بيوى سے غائب رہا اور پھر طلاق دے دى كيا عدت ہوگى يا نہيں

سوال: 72930

ايك عورت ايك برس سے اپنے ميكے ميں ہے، اور ايك برس بعد اسے طلاق كا پيپر ملا تو كيا اس عورت كو عدت گزارنا ہوگى يا نہيں ؟

يہ علم ميں رہے كہ وہ ايك برس تك ميكے ميں رہى اور اس عرصہ ميں خاوند سے نہيں ملى اور نہ ہى خاوند سے مباشرت كى ہے، تو كيا اس كے ليے عدت ہوگى يا نہيں، يا كہ ميكے رہتے ہوئے اس كى عدت ختم ہو چكى ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اس عورت كو طلاق كى عدت گزارنا ہوگى، اور يہ عدت طلاق حاصل ہونے كے بعد سے شروع ہوگى.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص بيس برس سے سفر پر گيا اور بيوى سے غائب رہا اور اتنے عرصہ كے بعد اس نے بيوى كو خلع كى بنا پر طلاق بھيج دى، اب يہ عورت كسى اور سے شادى كرنا چاہتى ہے كيا وہ عدت گزارےگى يا نہيں ؟

جبكہ اس كا خاوند تو بيس برس سے مسافر ہے اور بيوى سے مباشرت بھى نہيں كى، كيا عدت استبراء رحم كے ليے ہو گى يا اس كے علاوہ كسى اور مقصد كے ليے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

اگر واقعتا ايسا ہى ہے جيسا آپ نے بيان كيا ہے تو بلاشك اس پر عدت ہو گلى؛ كيونكہ عدت تو طلاق كے بعد شروع ہوتى ہے، چاہے خاوند اپنى بيوى سے كتنا بھى طويل عرصہ غائب رہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور وہ عورتيں جنہيں طلاق دى گئى ہے وہ تين حيض اپنے آپ كو انتظار ميں ركھيں .

اس ميں حكمت كيا ہے اس كے بارہ ميں علامہ ابن قيم رحمہ اللہ اپنى كتاب ” اعلام الموقعين ” ميں اس موضوع پر بہت ہى نفيس بحث كى ہے، اور يہ بھى بيان كيا ہے كہ اس ميں حكمت برات رحم كے ساتھ مخصوص نہيں، بلكہ اس كے علاوہ اور بھى كئى ايك حكمتيں پائى جاتى ہيں.

اسى ليے وہ بيوہ عورت جس سے خاوند نے دخول بھى نہ كيا ہو، اور چاہے وہ چھوٹى عمر كى بھى ہو جس كے متعلق حمل كا گمان بھى نہ ركھا جائے پر عدت ہوگى، اور اسى طرح جو عورت حيض سے نا اميد ہو چكى ہو اس كو پھى عدت گزارنا ہوگى.

اس سے يہ معلوم ہوا كہ برات رحم كے علاوہ بھى اللہ تعالى نے اس ميں كئى ايك حكمتيں ركھى ہيں، ليكن جيسا كہ آپ نے بيان كيا ہے اگر اس عورت نے طلاق كے حصول كے ليے مال خرچ كيا اور اس مال كے عوض ميں خاوند نے اسے طلاق دى تو اس طرح يہ عورت خلع حاصل كرنے والى كہلائيگى.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ خلع حاصل كرنے والى عورت كو ايك حيض عدت كافى ہے، عثمان بن عفان رضى اللہ تعالى عنہ اور سلف و خلف علماء كرام كى ايك جماعت نے بھى يہى فتوى ديا ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ان كے شاگرد ابن القيم رحمہ اللہ نے بھى اسے ہى اختيار كيا ہے اور ان شاء اللہ صحيح بھى يہى ہے.

خاص كر جب يہ ڈر ہو كہ اگر خلع والى عورت سے تين حيض يا پھر آيئسہ نااميد عورت كو تين ماہ عدت كا انتظار كرنے كا كہا جائے اور اس عرصہ ميں مناسب اور كفو كا رشتہ نكل جائے.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ اور ہمارے سب بھائيوں كو دين كى سمجھ عطا فرمائے اور دين اسلام پر ثابت قدم ركھے، يقينا اللہ سبحانہ و تعالى بڑا ہى جود و كرم كا مالك ہے ” انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ا بن باز ( 22 / 174 ).

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android