ميرے والد اور والدہ كے درميان شادى كو پچيس برس ہو چكے ہيں، اور تين برس قبل ميرے والد صاحب نے ايك ہندو بيوہ عورت سے شادى كر لى اور اسے مسلمان كر ليا، اس وقت سے ہمارے گھر ميں مشكلات پيدا ہو گئى ہيں، مذكورہ عورت كے پہلے خاوند سے دو بچے ہيں، مسئلہ كچھ اس طرح ہے:
دوسرى بيوى بھى وہيں ملازمت كرتى تھى جہاں ميرے والد صاحب ملازم تھے، اور وہاں باتيں ہوتى تھيں كہ ميرے والد صاحب كے اس عورت سے تعلقات ہيں، اور پھر بعد ميں انہوں نے اس عورت سے شادى كر لى اصل حقيقت حال كا علم تو اللہ كو ہى ہے، مذكورہ عورت كى شہرت كوئى اتنى اچھى نہ تھى، اور اسى طرح وہ بھڑكيلا لباس زيب تن كرتى تھى، اور تين برس گزرنے كے باوجود بھى اس پر كوئى اسلامى علامات ظاہر نہيں ہوئيں، وہ ابھى تك بھڑكيلا لباس زيب تن كرتى ہے، اور پہلے خاوند سے دو بچے پيدا ہونے كے بعد اس كا بچے نہ پيدا كرنے كا آپريشن بھى ہو چكا ہے، ميرے والد كو اس كا علم بھى تھا كہ وہ بانجھ عورت ہے ليكن اس كے باوجود اس سے شادى كر لى اب موضوع يہ ہے كہ:
كيا يہ شادى صحيح ہے حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بچے پيدا نہ كرنے والى بانجھ عورت سے شادى كرنا حرام كيا ہے ؟
اور اگر اس كا جواب اثبات ميں ہو تو ان دو بچوں كا حكم كيا ہے جنہيں اسلامى نام ديا گيا ہے اور وہ ايك نجى اسلامى سكول ميں تعليم حاصل كر رہے ہيں ؟
اور ميرى والدہ كے متعلق ميرا كيا موقف ہونا چاہيے، اور اس مسئلہ كے متعلق كيا موقف ركھوں ؟
بانجھ عورت سے شادى كرنا
سوال: 73416
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
آپ كے سوال ميں بيان ہوا ہے كہ آپ كے والد نے ايك ہندو بيوہ عورت سے شادى كى اور اسے مسلمان كر ليا، اگر تو عقد نكاح كے وقت وہ عورت ہندو تھى اور اس نے اسلام قبول نہيں كيا تھا بلكہ عقد نكاح كے بعد اسلام قبول كيا ہے تو اس كا نكاح باطل ہے، اور آپ كے والد كو دوبارہ نكاح كرانا چاہيے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے مسلمان كے ليے كسى مشركہ عورت سے نكاح كرنا حرام كيا ہے جب تك وہ اسلام قبول نہ كر لے اس سے نكاح نہيں ہو سكتا.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم مشركہ عورتوں سے نكاح مت كرو حتى كہ وہ ايمان نہ لے آئيں البقرۃ ( 221 ).
اور اگر عقد نكاح اسلام قبول كرنے كے بعد ہوا ہے تو پھر يہ نكاح صحيح ہے.
دوم:
اور آپ كے والد كے ليے ايسى عورت سے شادى كرنا جائز نہيں جس كى صفات ايسى ہوں جو آپ نے ذكر كى ہيں، اور پھر شريعت اسلاميہ نے رغبت دلائى ہے كہ دين والى عورت اختيار كى جائے، اور اس كا بھڑكيلا لباس پہننا مسلمان شخص كو اس اختيار سے روكتا ہے، اس ليے آپ پر واجب ہے كہ آپ اپنے والد كو اچھے انداز سے وعظ و نصيحت كريں كہ وہ اسے اسلامى احكام پر عمل كرنے كى راہنمائى كرے اور اسے پردہ كرنے كا حكم دے، اور اخلاق فاضلہ اختيار كرنے كا التزام كرے.
سوم:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسى عورت سے شادى كرنے كى رغبت دلائى ہے جو زيادہ محبت كرنے والى اور زيادہ بچے جننے والى ہو، انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمايا كرتے تھے:
” تم ايسى عورت سے شادى كرو جو زيادہ محبت كرنے والى ہو اور زيادہ بچے جننے والى ہو، كيونكہ ميں روز قيامت انبياء كے ساتھ زيادہ ہونے پر فخر كرونگا “
مسند احمد حديث نمبر ( 12202 ) ابن حبان نے صحيح ابن حبان ( 3 / 338 ) اور الھيثمى نے مجمع الزوائد ( 4 / 474 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور شمس آبادى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” الودود ” يعنى جو اپنے خاوند سے محبت كرتى ہو.
” الولود ” يعنى جو كثرت سے اولاد جنتى ہو، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ دونوں قيديں اس ليے لگائيں كہ جب وہ محبت كرنے والى نہ ہو تو خاوند اس ميں رغبت نہيں كريگا، اور جب محبت كرنے عورت زيادہ بچے نہ جنے تو مطلوب حاصل نہيں ہوتا اور وہ مطلوب زيادہ بچے پيدا كر كے امت مسلمہ كو زيادہ كرنا ہے، اور كنوارى عورتوں ميں يہ دونوں وصف ان عورتوں كے رشتہ داروں سے معلوم ہو سكتے ہيں، كيونكہ غالبا رشتہ داروں ميں طبيعت ايك دوسرے ميں سرايت كرتى ہے ” انتہى
ديكھيں: عون المعبود ( 6 / 33 – 34 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بانجھ عورت سے شادى كرنے سے منع فرمايا ہے.
معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس ايك شخص آيا اور عرض كرنے لگا:
مجھے ايك حسب و نسب والى خوبصورت عورت كا رشتہ ملا ہے ليكن وہ بانجھ ہے بچے نہيں جن سكتى كيا ميں اس سے شادى كر لوں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: نہ كرو.
وہ پھر دوبارہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا تو آپ نے دوسرى بار بھى اسے روك ديا، اور پھر وہ تيسرى بار آيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” تم شادى ايسى عورت سے كرو جو زيادہ محبت كرنے والى ہو اور زيادہ بچے جننے والى ہو، كيونكہ ميں تمہارے ساتھ باقى امتوں سے زيادہ ہونے ميں فخر كرونگا “
سنن نسائى حديث نمبر ( 3227 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2050 ).
اسے ابن حبان ( 9 / 363 ) اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1921 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور يہ نہى تحريم كے ليے نہيں بلكہ صرف كراہت كى بنا پر ہے، علماء كرام نے بيان كيا ہے كہ زيادہ بچے جننے والى عورت اختيار كرنا مستحب ہے واجب نہيں.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اور مستحب يہ ہے كہ عورت ايسى ہو جو زيادہ بچے جننے ميں معروف ہو ” انتہى
اور مناوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” زيادہ بچے نہ جننے والى عورت سے شادى كرنا مكروہ تنزيہى ہے ” انتہى
ديكھيں: الفيض القدير ( 6 ) حديث نمبر ( 9775 ).
جس طرح عورت كے ليے بھى بانجھ مرد سے شادى كرنا جائز ہے، اسى طرح مرد كے ليے بانجھ عورت سے شادى كرنا جائز ہے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح البارى ميں لكھتے ہيں:
” اور وہ شخص جو نسل پيدا نہيں كر سكتا اور نہ ہى اسے عورتوں ميں كوئى رغبت اور خواہش ہے اور نہ ہى استمتاع اور فائدہ كى كوئى خواہش ہے تو اس كے حق ميں ( نكاح كرنا ) مباح ہے اگر عورت كو اس كا علم ہو جائے اور وہ اس پر راضى ہو ” انتہى
چہارم:
رہا آپ كے والد كا اپنى بيوى كے بچوں كو اسلامى نام دينا اور انہيں ايك اسلامى مدرسہ اور سكول ميں داخل كروانا تو يہ دونوں امر ہى اچھے ہيں اس پر آپ كے والد كا شكريہ ادا كرنا چاہيے، كيونكہ قبيح اور غلط يا عجمى ناموں كو عربى اور اسلامى ناموں ميں تبديل كرنا قابل تعريف اور اچھا عمل ہے، مزيد آپ سوال نمبر ( 23273 ) اور ( 14622 ) اور ( 12617 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
اور انہيں اسلامى مدرسہ ميں داخل كرانا ان كے ليے صحيح دين اسلام كو جاننے اور اسلام قبول كرنے كا ايك وسيلہ ہے ہم اميد كرتے ہيں كہ وہ نيك و صالح مسلمان بنيں گے.
پنجم:
آپ كو چاہيے كہ آپ اپنى والدہ كے ساتھ حسن سلوك كے ساتھ پيش آئيں اور ان كا خيال ركھيں، اور آپ ماں كو نصيحت كريں كہ وہ آپ كے والد كا حق ادا كرے، اور اس كے ليے اپنے خاوند كى حكم عدولى كرنا جائز نہيں، الا يہ كہ اگر وہ اللہ تعالى كى معصيت و نافرمانى كا حكم دے تو اس ميں ان كى اطاعت نہيں ہے، اور آپ اپنے والد كى دوسرى بيوى كو نصيحت كريں اور اسے خير و بھلائى كى طرف راہنمائى كريں، اور اسى طرح دوسرى بيوى كى اولاد كى بھى راہنمائى كريں اور ان كا خيال ركھيں اور اسلام كے تعارف اور اس كے احكام پر عمل كرنے ميں ان كى معاونت كريں.
اللہ تعالى سے ہم دعا گو ہيں كہ وہ آپ كے خاندان كى اصلاح فرمائے اور آپ سب كو اطاعت و فرمانبردارى كى توفيق دے اور اچھے طريقہ سے عبادت كى توفيق عطا فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب